قوم کو متحد ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا فوجی آپریشن سے مسائل حل کر نا ہیں، چوہدری نثار ،ملکی دفاع کی مضبوطی،شدت پسندی کے خاتمے اور امن و امان کیلئے اندرونی سیکورٹی پالیسی آج کابینہ اجلاس میں پیش کی جائے گی، سیکورٹی پالیسی کا پہلا حصہ خفیہ،دوسرا حصہ سٹرٹیجک اور تیسرا ملک و قوم کے دفاع کو مضبوط کرنے پر مشتمل ہے،بنوں حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ، واقعہ پر آئی جی ایف سی سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے، دفاعی اور حساس معاملات کو سیاست میں زیر بحث کہیں نہیں لایا جاتا ، حساس معاملات پر 13برس کے ناکام سیاست دان اپنی سیاست چمکا رہے ہیں،امن قائم کرنے کے لئے اگر کوئی بھی ہم سے بہتر کردار ادا کرسکتا ہے تو اس کو پورے اختیارات دینے اور ان کی قیادت میں چلنے کے لئے تیار ہیں، ملک میں 26سول و ملٹری خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہے مگر بدقسمی سے ان کے درمیان رابطہ بارے آج تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا،میڈیا سے غیر رسمی گفتگو

پیر 20 جنوری 2014 05:35

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20جنوری۔2014ء)وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملکی دفاع اور امن و امان کے قیام کے لئے پوری قوم کو متحد ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا ملٹری آپریشن سے مسائل حل کرنے ہیں،ملکی دفاع کو مضبوط بنانے،شدت پسندی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کیلئے اندرونی سیکورٹی پالیسی آج(پیرکو)کابینہ اجلاس میں پیش کی جائے گی، سیکورٹی پالیسی کا پہلا حصہ خفیہ،دوسرا حصہ سٹرٹیجک اور تیسرا ملک و قوم کے دفاع کو مضبوط کرنے پر مشتمل ہے۔

بنوں حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اس کے باعث وزیر اعظم نے اپنا دورہ سوئٹزرلینڈ منسوخ کیا، واقعہ پر آئی جی ایف سی سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ٹکر، ہیڈ لائنز اور پوائنٹ سکورنگ کی سیاست کرنے والوں نے 13برس میں وہ نہیں کیا جو ہم نے گزشتہ چھ ماہ میں کر دکھایا، ملک کے دفاع اور حساس معاملات کو سیاست میں زیر بحث کہیں نہیں لایا جاتا مگر یہاں حساس معاملات پر 13برس کے ناکام سیاست دان اپنی سیاست چمکا رہے ہیں،امن قائم کرنے کے لئے اگر کوئی بھی ہم سے بہتر کردار ادا کرسکتا ہے تو اس کو پورے اختیارات دینے اور ان کی قیادت میں چلنے کے لئے تیار ہیں، پاکستان امریکہ کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ 26سول و ملٹری خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہے مگر بدقسمی سے ان کے درمیان رابطہ بارے آج تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز پنجاب ہاوٴس میں میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ بنوں واقعہ کی وجہ سے وہ اپنی پریس کانفرنس منسوخ کرتے ہیں کیونکہ ان حالات میں کسی اور موضوع پر بات کرنا مناسب نہیں،واقعہ کی تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے جس سے آج ساری صورتحال سامنے آ جائے گی۔ آج کابینہ کے اجلاس میں اندرونی سکیورٹی کی پالیسی پیش کی جائے گی۔

پاکستان کو اس وقت مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور ان حالات میں ہمیں اپنی سمت درست کرنا ہوگی اور اپنی استعداد کو بڑھانا ہوگا۔ اندرونی سکیورٹی کا مقصد پاکستان کے طول و عرض اور چپے چپے کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے بالخصوص ان مقامات کی حفاظت جن کو ماضی میں ٹارگٹ کیا گیا۔ روایتی انداز کی بجائے جدید طریقے اور جدید ٹیکنالوجی سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا ہے امریکہ کے بعد پاکستان دوسرا بڑا ملک ہے جہاں چھبیس سول و ملٹری خفیہ ایجنسیاں کام کررہی ہیں مگر آج تک ان کے درمیان رابطے اور کوآرڈینیشن کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

وزیراعظم نے امن و امان کے قیام کیلئے سب کو کردار ادا کرنے کیلئے کھلی پیشکش کی ہے اور ہم اس حوالے سے طالبان سے مذاکرات کیلئے قیادت دینے کو بھی تیار ہیں جہاں حکومتی ٹیم کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ مذاکرات کرنے والا کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے وقت کا ضیاع اور پاکستان کا نقصان ہورہا ہے گزشتہ تیرہ برس اقتدار میں رہنے کے باوجود مذاکرات یا ملٹری آپریشن بارے کوئی اقدام نہ اٹھانے والے آج حکومت پر تنقید کررہے ہیں مگر حکومت نے گزشتہ چھ ماہ میں وہ کردکھایا ہے جو ماضی میں آج تک نہیں ہوا۔

صرف دس ہفتوں میں طالبان سے مذاکرات کیلئے کافی پیشرفت ہوچکی تھی مگر ڈرون حملے کی وجہ سے سارا عمل متاثر ہوا اور نئی قیادت ابھی تک مذاکرات کیلئے تیار نہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ آج سیاست ٹکر تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ٹکر ہیڈ لائن اور پوائنٹ سکورنگ کی سیاست کرنے والے ماضی میں کچھ نہیں کر سکے۔ حکومت تنقید برداشت کررہی ہے مگر خدا راہ حساس معاملات پر پوائنٹ سکورنگ سے گریز کیا جائے۔

اب ہم نے شفاف اور کلیئر پالیسی اختیار کرنی ہے تمام صوبوں کو 65 بم پروف گاڑیاں تقسیم کی جائیں گی اور میپنگ کا کام جلد از جلد مکمل کیا جائے گا۔ تاکہ کسی بھی واقعہ سے نمٹنے کیلئے کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اندرونی سکیورٹی کی پالیسی تین حصوں پر مشتمل ہوگی جس کا پہلا حصہ خفیہ ہوگا جبکہ دوسرا حصہ سٹریٹجک معاملات پر مشتمل ہوگا جس میں مذاکرات حکمت عملی اور آپریشن جیسے پہلو شامل کئے گئے ہیں۔

پالیسی کا تیسرا حصہ ملک و قوم کے دفاع کو مضبوط کرنے پر مشتمل ہوگا یہ حصہ روایتی نداز کی بجائے جدید ٹیکنالوجی اور سائنٹفک انداز میں معاملات کو آگے لے کے جانے اور دفاع کو مضبوط بنانے پر مشتمل ہوگا۔ نئی اندرونی سکیورٹی پالیسی کے تحت جائنٹ انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کا ون پوائنٹ ایجنڈا شامل کیا گیا ہے جس کے تحت وفاق سمیت چاروں صوبوں کیلئے ریپڈ رسپانس فورس بنائی جائے گی۔

جائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے کنٹرول میں کام کرے گی۔ یہ فورس پانچ سو سے شروع ہوکر دو ہزار کے لگ بھگ ہوگی چوبیس گھنٹوں کی بنیاد پر کام کرے گی اور کسی بھی غیر یقینی صورتحال میں کوائک رسپانس کے طور پر منٹوں میں ا یکشن کرے گی اور اگر اچانک واقعہ ہوگیا تو ریپڈ رسپانس فورس اس واقعہ کو سب سے پہلے قابو پانے کی کوشش کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ آٹھ برس میں اقتدار میں رہنے والوں اور اس کے بعد مزید پانچ برس اقتدار کے مزے لوٹنے والے اپنے دور میں دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیں کر سکے۔ مگر آج ملکی حساس معاملات پر پوائنٹ سکورنگ کرکے سیاست چمکا رہے ہیں جو سیاست کا افسوسناک پہلو ہے کیونکہ دنیا کے کسی ملک میں بھی ریاست ‘ دفاع اور حساس معاملات پر سیاست سے گریز کیا جاتا ہے۔