غداری کیس: مشرف کو علامتی حراست میں لینے کی استدعا مسترد ، کسی کی پسند کا فیصلہ نہیں دے سکتے ،24 جنو رے کو میڈیکل بو رڈ کی رپو رٹ کا جا ئزہ لے کر مشر ف کی گرفتا ری کا فیصلہ دیں گے، مشرف کا نام ای سی ایل میں مو جو د ہے مزید کسی حکم کی ضرورت نہیں ،جسٹس فیصل عرب ، ایمرجنسی کا نفاذ فرد واحد کے طور پرنہیں بلکہ اجتماعی طور پر کیا گیا ، نواز شریف اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی پرویز مشرف کے ساتھ ذاتی عناد ہے،انور منصور کے دلا ئل

ہفتہ 18 جنوری 2014 03:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18جنوری۔2014ء) سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیخلاف غداری کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے خصوصی عدالت نے مقدمہ کے پراسکیوٹر کی جانب سے سابق صدر کو علامتی تحویل میں لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی ہے ۔جمعہ کے روز مقدمہ کی سماعت تین رکنی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں ہوئی اس موقع پر سابق صدر کے وکیل انور منصورنے خصوصی عدالت کے قیام کے نوٹیفکیشن ، ججز کے چناؤ ،سپریم کورٹ و ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے مشاورت ، پراسکیوٹر کی تقرری ، خصوصی عدالت کے قیام پر اٹھائے گئے اعتراضات پر دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ 20جنوری 2013ء کو خصوصی عدالت کے قیام کا نوٹیفکیشن قانون کے مطابق درست نہیں ۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس سے ججوں کی تقرری بارے مشاورت اور خصوصی عدالت کے قیام کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو ان کے موکل پرویز مشرف کے ساتھ ذاتی عناد ہے اور یہ تمام کام بدنیتی کی بنیاد پر کیا گیا ۔3جولائی 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل سابق صدر پرویز مشرف نے اس وقت کے مسلح افواج کے سربراہان ، کور کمانڈرز اوردیگر اہم شخصیات کے ساتھ مشاورت کی تھی اوراس کے بعد ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی ۔

ایمرجنسی کا نفاذ فرد واحد کے طور پرنہیں بلکہ اجتماعی طور پر کیا گیا اورایمرجنسی کے نفاذ کے حکم نامے میں لکھا ہے کہ کچھ ججز ایگزیکٹو کو کمزور کرنا چاہتے تھے ۔ انور منصور نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت کے قیام کے نوٹیفکیشن میں چیف جسٹس سے ججوں کے چناؤ بارے مشاورت کا ذکر کیا گیا ہے جو غیر ضروری ہے ۔ یہ مشاورت صدر پاکستان اور وفاقی کابینہ کے ساتھ ہونا تھی مگر اس کے برعکس مشاورت چیف جسٹس آف پاکستان سے کی گئی جو میرے موکل پرویز مشرف کیخلاف ذاتی عناد رکھتے ہیں ۔

ایمرجنسی میں شریک دیگر لوگوں کیخلاف حکومت کی جانب سے نہ کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ان پر کوئی الزام لگایا گیا اور نہ ہی ان کیخلاف چارج شیٹ پیش کی گئی ۔ خصوصی عدالت کا قیام انتقامی جذبے کے تحت اٹھایا گیا ہے جو کہ غیر قانونی ہے ۔ اس موقع پر مقدمہ کے پراسکیوٹر اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت نے نو جنوری کو اپنے حکم میں کہا تھا کہ سولہ جنوری کو ملزم پرویز مشرف کی عدالت میں عدم حاضری کی صورت میں مناسب حکم جاری کیاجائے گا تاہم عدالت نے صرف میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا ہے اور سابق صدر کی گرفتاری بارے کوئی احکامات جاری نہیں کئے ۔

انہوں نے اے ایف آئی سی کے سینئر ڈاکٹرز پرمشتمل میڈیکل بورڈ بنانے کے عدالتی حکم پر زبانی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بہتر یہ ہوتا کہ عدالت ملک کے جید ماہرین امراض قلب پر مشتمل پانچ رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیتی جو آزادانہ طور پر سابق صدر کی بیماری کی نوعیت کے بارے میں عدالت کو آگاہ کرتا ۔ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی عدم گرفتاری کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ سابق صدر بیرون ملک فرار ہو جائینگے جس پر خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ہے اگر چہ عدالت کے پاس دیگر آپشن موجود ہیں مگر میڈیکل بورڈ کا فیصلہ آنے تک کوئی حکم جاری نہیں کیا جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں حکم کسی کو خوش کرنے یا مذاق اڑانے کے بارے میں جاری نہیں کرتی بلکہ عدالتی حکم کا مقصد قانونی تقاضے پورے کرنا ہوتا ہے ۔ اس موقع پر اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سابق صدر کی علامتی حراست کے احکامات جاری کرکے ان کی حراست کو ریگولیٹ کیاجائے تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مشرف کا نام پہلے سے ای سی ایل میں موجود ہے اور چوبیس جنوری کو میڈیکل بورڈ کی رپورٹ آنے تک ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا جاسکتا ۔ بعد ازاں عدالت نے وکیل صفائی انور منصور کی تربیت خراب ہونے پر مقدمے کی مزید سماعت پیر 20جنوری تک ملتوی کردی ۔