پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت،خصوصی عدالت نے اے ایف آئی سی کے ماہر ڈاکٹروں کو بورڈ بنانے کا حکم دیدیا،بورڈ 24جنوری تک اپنی رپورٹ دے گاپھر مزید استثنیٰ کے حوالہ سے فیصلہ کیا جائے گا ، پہلے عدالت کے اختیارات اور اسکی قانونی حیثیت کا فیصلہ کیا جائے،مشرف کے وکلاء کی استدعا، پراسیکیوٹر کی بار بار پیش نہ ہونے پر پرویزمشرف کے خلاف کارروائی کی استدعا،انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کو ایک دن کی عدالتی حاضری کی استثنیٰ کی درخواست منظور ، 27جنوری کو عدالت میں طلب ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت میں پیشی کے خصوصی عدالت کے حکم کو روکنے اور حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست مستردکردی

جمعہ 17 جنوری 2014 07:21

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17جنوری۔2014ء)سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ان کے میڈیکل چیک اپ کیلئے اے ایف آئی سی کے ماہر ڈاکٹروں کو بورڈ بنانے کا حکم دیا ہے جو 24جنوری تک اپنی رپورٹ دے گا اور اس کی روشنی میں مزید استثنیٰ کے حوالہ سے فیصلہ کیا جائے گا جبکہ سابق صدر کے وکلاء نے زور دیا ہے کہ پہلے عدالت کے اختیارات اور اس کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ خصوصی عدالت کے قیام کا قانونی طور پر اختیار صدر کو حاصل ہے جبکہ یہ عدالت وزیراعظم نے چیف جسٹس کے مشورہ سے بنائی ہے اور پراسیکیوٹر نے بار بار پیش نہ ہونے پر پرویزمشرف کے خلاف کارروائی کی استدعا کی ہے۔

جمعرات کے روز پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت کے بینچ نے کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر مقدمہ کے پراسیکیوٹرکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم پرویز مشرف ایک بار پھر عدالتی حکم کے باوجود پیش نہیں ہوئے ،فوجداری ایکٹ 1976ء کی شق (2) 6کے تحت خصوصی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ملزم کی جانب سے عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر اُن کیخلاف ان کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا جائے یا پھر عدالت حکم عدولی پر ملزم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وکلائے صفائی کی جانب سے عدالتی دائرہ اختیار کے بارے میں اسلام آبادہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک نئی انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی گئی ہے حالانکہ قانون کے مطابق ایک اعتراض بیک وقت دو عدالتوں میں نہیں اٹھایا جا سکتا ،جبکہ خصوصی عدالت کو کینگرو کورٹ کا نام بھی دیا جارہا ہے جو شخص اس عدالت کے کارروائی کو نہ مانے تو عدالت اُس کے خلاف کارروائی کا حق رکھتی ہے ۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم پرویز مشرف کو عدالت نے چھ مرتبہ طلب کیا لیکن وہ پھر بھی پیش نہیں ہوئے حالانکہ دنیا بھر میں عدالتی احکامات پر ہر صورت عمل ہوتا ہے ،مصر کے سابق صدر حُسنی مبارک کو سٹریچر پر لا کر عدالت پیش کیا گیا ،شطر الدین گاندھی کو بھی سٹریچر پر لا کر سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا تھا ،ملزم کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ عدالت اُس کا انتظار کرے اس کے بر عکس اگر کوئی شخص عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو وہ اپنے حقوق کھو بیٹھتا ہے ۔

اکرم شیخ نے عدالت عظمی کے 2007ء کے ایک کیس کا حوالہ دینے کے علاوہ اس ضمن میں پانچ مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیش نہ ہونے والا ملزم اپنے بنیادی حقوق کا دعویٰ نہیں کر سکتا ،یہ مقدمہ 13دسمبر سے شروع ہوا اب تک کئی سماعتیں ہو چکیں کبھی سیکورٹی تو کبھی بیماری کو جواز بنا کر ملزم پیش نہیں ہو ا۔لہذا میر ی استدعا ہے کہ ملزم پر خصوصی قوانین کے سب سیکشن 2اور سیکشن 6کا اطلاق کیا جائے ،سمن جاری ہونے کے بعد اگر وکلاء کی جانب سے وکلالت نامہ جمع کرایا جائے تو عدالت کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ وکالت نامہ منظور نہ کرے۔

انھوں نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار کا معاملہ کتنی عدالتوں میں چیلنج ہو گا اس عدالت کے پاس محدود اختیارات ہیں اگر دائرہ اختیار کو چیلنج کرنا ہے تو پھر وہ بھی قانون کے مطابق ہو گا مشرف کو پہلے پیش ہونا چاہیے ،آئین خصوصی عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے۔سماعت کے دوران وکیل صفائی رانا اعجاز نے کھڑے ہو کر الزام لگایا کہ سابق صدر کو میڈیا میں غدار کہا جارہا ہے عدالت اس امر کو بھی مد نظر رکھے ۔

وکیل صفائی انور منصور نے کہا کہ ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی پراسیکیوٹر نے پرویز مشرف کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا تھا، اکرم شیخ پراسیکوٹر نہیں بلکہ پر سکیوٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔اس پر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ وکلائے صفائی کی جانب سے نئی درخواست دائر کی گئی ہے اس پر انور منصور نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیا ربارے پہلے فیصلہ ہونا چاہیے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ نے زبانی کہا ہے کہ اس کیس پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن ہم نے اُس پر فیصلہ جاری کر دیا ہے ،اس پر انور منصور نے کہا کہ خصوصی عدالت کو یہ اختیار نہیں ،نہ ہی یہ عام معاملہ ہے بلکہ ایک فرد کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے اگر ایک شخص کو گرفتار کر لیا جائے اور جلد ہی یہ ثابت ہو جائے کہ خصوصی عدالت کا قیام غیر قانونی ہے تو پھر کیا ہوگا ؟اس لیے پہلے خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ دائرہ اختیار پہلے طے کیا جائے گا ۔انور منصور نے کہا کہ اگر دائرہ اختیار اور عدالت کی تشکیل ہی غیر قانونی ہو تو پھر اُس کے کیے جانے والے تمام احکامات کو منسوخ کیا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ چوہدری اسلم کو بلٹ پروف گاڑی میں ہونے کے باوجود قتل کر دیا گیا سابق صدر پرویز مشرف ہسپتال میں ہیں جہاں اُن کا علاج ہو رہا ہے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ میں نے یہ بات میڈیا پر آکر نہیں کہی کہ پرویز مشرف غدارہے میں ایک سینئر وکیل ہوں ،میرے دو بیٹے بیرسٹر ہیں وکیلوں کا احترام کرنا چاہیے ۔انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشر ف کے علاج کیلئے بیرون ملک ڈاکٹرز سے علاج کیلئے وقت لیا ہے ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ پراسیکیوٹر کی تقرری غیر قانونی ہے اور جب پراسیکیوٹر کی تقرری چیلنج کی جائے تو وہ دلائل نہیں دے سکتا ۔

یہ عدالتی دائرہ اختیار پر ایک اور حملہ ہے ،پہلے یہ آپ ہی کا فیصلہ تھا کہ پہلے عدالتی دائرہ اختیار بارے فیصلہ دیا جائے ۔انور منصور نے کہا کہ میری درخواست کے تین پہلو ہیں جن میں ججز پر اعتراضات کے ساتھ ،پراسیکیوٹر کی تقرری اور خصوصی عدالت کے نوٹیفیکیشن کا اجراء شامل ہے جس پر عدالت نے اُن سے کہا کہ آپ تینوں پہلوؤں پر دلائل دے چکے ہیں ۔

انو ر منصور نے کہا کہ میری درخواست پر دلائل مکمل ہیں لیکن خالد رانجھا کے دلائل ابھی باقی ہیں جبکہ میں نے اپنی درخواست پر مزید دلائل دینے ہیں ہمیں خصوصی عدالت کے 9جنوری کے فیصلے کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کی یادداشت مجھ سے زیادہ ہے آپ نے خود کہا تھا کہ 9جنوری کے فیصلے کی کاپی رجسٹرار سے وصول کر لیں گے ،پرویز مشرف کی حاضری بارے تحریری درخواست دیں گے تو عدالت اُس پر عدالت مناسب فیصلہ کرے گی ۔

عدالت نے کہا کہ دو دن ماحول بہتر رہا لیکن آج پھر بد مزگی ہوئی اس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ بد مزگی میری طرف سے نہیں ہوئی کیونکہ میرا ایک گواہ پراسیکیوٹر اور دوسری عدالت ہے ۔ ایک اور وکیل صفائی ابراھیم ستی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 31جولائی 2009ء کے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے لہٰذا استدعا ہے کہ مقدمے کی سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کی جائے کیونکہ اگر درخواست پر فیصلہ ہوتا ہے تو 3نومبر کا اقدام موثر ہو جائے گا، درخواست پر نمبر لگ گیا ہے ،چیف جسٹس سے بھی استدعا کی گئی ہے کہ درخواست کی پہلے سماعت کی جائے عدالت خود کہہ چکی ہے کہ اُسے جلدی نہیں ،قانون کے مطابق اگر سپریم کور ٹ کے ٹیبل پر کوئی درخواست پڑی ہے تو دوسری عدالتوں کو سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہوئے ایسے مقدمات کی سماعت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ خصوصی عدالت کی کارروائی کے خلاف حکم امتناعی لے آئیں تو ہم تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اگر حکم امتناعی نہیں ملتا تو بتائیں کہ تب کیا ہوگا؟ اس پر ابراھیم ستی نے کہا کہ ایسی صورت میں خصوصی عدالت اپنی کارروائی جاری رکھے ، سپریم کورٹ کے 14رُکنی لارجر بینچ نے 3نومبر 2007ء کے اقدام پر فیصلہ دیا ہے جس میں کہیں بھی غداری کا لفظ استعمال نہیں ہوا ،ایمرجنسی وزیر اعظم کے انتہائی خفیہ خط کے بعد لگائی گئی اس پر عدالت نے کہا کہ ہم 31جولائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست نہیں سُن رہے ۔

انو ر منصور نے خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کوئی بھی انتظامی اقدام صدر کے نام سے کرتی ہے لیکن خصوصی عدالت کی تشکیل کے حوالے سے جاری نوٹیفیکیشن میں صدر مملکت کا کہیں ذکر نہیں بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد خصوصی عدالت قائم کرنے کے احکامات دیئے ۔ وفاقی حکومت اپنی ذمہ داریاں وزیر اعظم سمیت وفاقی وزراء پر مشتمل پوری کابینہ کے ذریعے سرانجام دیتی ہے صرف وزیر اعظم وفاقی حکومت نہیں ہوتا ،جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے نوٹیفیکیشن کی منظوری نہیں دی ۔

انور منصور نے کہا کہ خصوصی عدالت کے قیام کیلئے پہلے کابینہ منظور ی دیتی ہے پھر سمری منظور ی کیلئے صدر مملکت کو ارسال کی جاتی ہے جس کے بعد اُس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے لیکن اس میں صدر مملکت کا نام تک شامل نہیں اور نہ صدر نے منظوری دی ہے ۔بعدازاں سماعت (آج) جمعہ تک کیلئے ملتوی کر دی گئی ۔ادھرانسداد دہشتگردی اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو ایک دن کی عدالتی حاضری کی استثنیٰ درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں 27جنوری کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئندہ سماعت پر ملزم پرویز مشرف کی عدالت میں حاضری کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے۔جمعرات کے روز مقدمہ کی سماعت انسداد دہشتگردی اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے جج عتیق الرحمن نے کی۔اس موقع پر سابق صدر کی جانب سے ان کے وکیل الیاس صدیقی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مدعی مقدمہ اسلم گھمن اور ان کے ساتھی وکلاء بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے موقع پر عدالت نے سابق صدر کی پیشی سے متعلق وکیل صفائی سے استفسار کیا جس پر الیاس صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ سابق صدر اے ایف آئی سی میں زیر علاج ہیں جس کے باعث وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے جس پر مدعی مقدمہ چودھری اسلم گھمن کے وکیل نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کا کوئی میڈیکل سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور دوسری جانب پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے بھی انہیں میڈیکل کی بنیاد پر عدالتی استثنی دینے کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں،ان کی بیماری اس نوعیت کی نہیں کہ وہ عدالت میں پیش نہ ہو سکیں، اس پر الیاس صدیقی ایڈووکیٹ نے فاضل عدالت کو بتایا کہ سیکیورٹی انتظامات سے بھی ان کے موٴکل مطمئن نہیں لہذا نہیں بیماری اور سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر استثنی دیا جائے جس پر فاضل جج نے کہا کہ ابھی سیکیورٹی انتظامات کی ہدایات جاری کر دیتے ہیں جس کے بعد عدالت نے وفاقی پولیس کے افسران اور وزارت داخلہ کے حکام کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سیکیورٹی انتظامات مکمل کرکے ملزم کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنائیں۔

اس کے بعد عدالت نے ساڑھے بارہ بجے تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے وقفے کے بعد پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کرنے کے احکامات جاری کیے۔وقفے کے بعدجب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر استدعا کی کہ انہیں کچھ وقت دیا جائے تاکہ مناسب انتظامات مکمل کر لئے جائیں جس پر عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت 27جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ آئندہ سماعت پر ملزم کو ہرصورت عدالت میں پیش کیا جائے۔

جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی خصوصی عدالت میں پیشی کے بارے میں خصوصی عدالت کے حکم کو روکنے اور انہیں حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست مستردکردی ہے ، جسٹس ریاض احمد خان نے سماعت کی۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف شدید علیل ہیں اور بیماری کے باعث وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوسکتے اس لئے استثنیٰ دی جائے جس پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ریاض احمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت کے احکامات ہائی کورٹ میں تبدیل نہیں ہوسکتے جس پر مشرف کے وکیل چوہدری فیصل نے کہا کہ سیکشن 12 کے تحت خصوصی عدالت کے احکامات تبدیل نہیں کئے جائیں ۔

سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاء کی ٹیم نے انٹرا کورٹ اپیل بھی دائر کی تھی جس میں خصوصی عدالت کی تشکیل اور پراسکیوٹر جنرل کی تقرری کو چیلنج کیا گیا تھا اور تین رکنی ججز بینچ پر بھی اعتراض اٹھائے تھے جس کی سماعت ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کررہا تھا جس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس نور الحق قریشی تھے ۔ مشرف کے وکلاء کی جانب سے اعتراض اٹھائے جانے پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بینچ سے خود کو علیحدہ کردیا ۔

بعد ازاں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر عدالت نے حکم دیا کہ خصوصی عدالت سے ہی رجوع کیا جائے، سیکشن 12کے تحت ہائی کورٹ خصوصی عدالت کا کوئی حکم نامہ منسوخ نہیں کرسکتی جبکہ دوسری جانب مشرف کے وکلاء نے موقف اپنایا کہ خصوصی عدالت کے حکم نامے کو ترمیم کیاجاسکتا ہے جس پر جسٹس ریاض احمد خان پر مشتمل سنگل بینچ نے فیصلہ سنایا کہ خصوصی عدالت سے ہی رجوع کریں کیونکہ خصوصی عدالت کے معاملات میں ہائی کورٹ مداخلت نہیں کرسکتی ۔ مشرف کے وکلاء نے میڈیا کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی عدالت میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے ۔