پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مختلف ادوار کی آڈٹ رپورٹوں کا جائزہ لینے کیلئے تین ذیلی کمیٹیاں تشکیل دیدیں، کسی سرکاری افسر کو سرکاری خرچہ پر حج نہیں کرنا چاہئے،کمیٹی کی سفارش، سرکاری خرچ پر حج کیا مگر واپسی پر رقم واپس کردی تھی، ڈی جی ریڈیو،رجسٹرار کو بلانا ہو تو سپریم کورٹ میں عدالت کا فیصلہ چیلنج کرنا پڑے گا،ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، خورشید شاہ، ریڈیو میں 4200روپے تنخواہ لینے والوں کی تفصیلات دی جائیں،شیخ رشید کا مطالبہ

جمعرات 16 جنوری 2014 04:08

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16جنوری۔2013ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مختلف ادوار کی آڈٹ رپورٹوں کا جائزہ لینے کیلئے تین ذیلی کمیٹیاں تشکیل دیدی ہیں جبکہ سفارش کی ہے کہ کسی سرکاری افسر کو سرکاری خرچہ پر حج نہیں کرنا چاہئے اور ڈی جی ریڈیو نے بتایا ہے کہ انہوں نے سرکاری خرچ پر حج کیا مگر واپسی پر رقم واپس کردی تھی جبکہ خورشید شاہ نے کہا ہے کہ رجسٹرار کو بلانا ہو تو سپریم کورٹ میں عدالت کا فیصلہ چیلنج کرنا پڑے گا، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے ختم نہیں کرسکتی، اپیل میں جانے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیااور رکن کمیٹی شیخ رشید نے مطالبہ کیا ہے کہ ریڈیو میں 4200روپے تنخواہ لینے والوں کی تفصیلات دی جائیں۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر دصارت بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارت اطلاعات ونشریات کے آڈٹ اعتراضات برائے 1998-99ء کا جائزہ لیاگیا ۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ کوئٹہ میں یوتھ ڈویلپمنٹ سنٹر کی تعمیر کے لیے مشینری کے بل کی کلیئرنس اور فنانس ڈویژن بروقت کلیئرنس نہ ہونے کے باعث 4کروڑ 6لاکھ 68 ہزار روپے کی رقم سرنڈر نہیں کی گئی ۔

کمیٹی نے معاملے کی مزید تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔ کمیٹی کو ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان ثمینہ پرویز نے بتایا کہ انہوں نے پیپرارولز کے تحت حاصل اختیارکو استعمال کرتے ہوئے مارکیٹنگ کا ٹھیکہ دینے کے لیے اشتہار دیا تو چار کمپنیوں نے درخواست دی جن میں سے دو کو شارٹ لسٹ کیاگیا، لاؤنڈ اینڈ کلیئر کمپنی کو کنٹریکٹ کیا، کمپنی نے ہمارے کہنے پر ایس ای سی پی میں نومبر میں رجسٹریشن کرائی تاہم ایسی کوئی شرط نہیں تھی۔

کمیٹی نے معاملہ آڈٹ کو بھجواتے ہوئے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی ۔ کمیٹی کے استفسار پر ڈی جی ریڈیونے بتایا کہ وہ ریڈیو کے اخراجات پر بحث کی گئی تھی مگر وزارت کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر حج سے واپس آتے ہی تمام رقم جمع کروادی تھی کمیٹی نے کہا کہ آپ نے پیسے تو واپس کردیئے تاہم ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بھی سرکاری افسر سرکاری خرچ پر حج نہ کرے ۔

وزارت اطلاعات کے حکام نے بتایا کہ ریڈیو کی جانب سے نجی کمپنی کو مارکیٹنگ کا کنٹریکٹ دینے کے حوالے سے رپورٹ مانگی گئی تھی جو تیار ہوچکی ہے ۔ ڈی جی ریڈیو نے بتایا کہ 2000ء سے 2009ء تک نجی کمپنی ایف ایم 101 کی مارکیٹنگ کرتی رہی ہے ۔ رکن کمیٹی شیخ رشید نے بتایا کہ ریڈیو میں کئی ملازمین 4200سے کم تنخواہ لے رہے ہیں اس حوالے سے بتایا جائے کہ کتنے ملازمین 4200 روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔

رکن کمیٹی راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ ہمارے حلقے میں 29 کروڑ 40 لاکھ کے 13 منصوبوں میں 14 کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی ہے یہ معاملہ آڈٹ کو بھجوایا جائے ۔ راجہ جاوید اخلاص نے 13 منصوبوں کی فہرست کمیٹی میں دیدی ۔ چیئرمین کمیٹی نے اس معاملے پر کمیٹی کے اندرونی اجلاس میں زیر غور لانے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا ۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ پرانے معاملات میں 14سال کے بعد کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، کمیٹی اپنا کام تب اچھے طریقے سے کرے گی جب موجودہ اکاؤنٹس پر کام کرے گی ۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ چھ ماہ پرانے معاملات کو نمٹالیں گے تاکہ پی اے سی کو موثر طریقے سے چلا سکیں ۔ کمیٹی کے انتظامی ان کیمرہ اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ کمیٹی نے تین ذیلی کمیٹیاں تشکیل دیدی ہے ۔مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت 1998-99ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لینے کے بعد شفقت محمود کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے، ایک سال کے بعد 2600 آڈٹ اعتراضات کا ذیلی کمیٹی جائزہ لے گی جبکہ مالی سال 2002-03ء اور 2003-04ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لینے کے بھی نوید قمر کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی بنائی گئی ہے، یہ ان سالوں کے دوران 2300آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لے گی جبکہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت 2007-08ء اور 2008-09ء کے آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے بعد عاشق حسین گوپانگ کی زیر صدارت ذیلی کمیٹی جائزہ لے گی ۔

6 رکنی کمیٹی 1900 آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لے گی جبکہ 2010-11ء اور 2011-12ء اور 2012-13ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ کمیٹی لے گی ۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ ایک سال کے اندر کنٹریکٹ اعتراضات تک پہنچ جائیں گے ۔ کمیٹی نے وزارت قانون و انصاف کو پابند کیا ہے اور پی اے سی کے ہر اجلاس میں وزارت کا افسر شرکت کرے گا تاکہ قانونی معاملات کے حوالے سے رائے لی جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے وزارت منصوبہ بندی سے ان منصوبوں کی تفصیلات مانگ رکھی ہیں جو 2000ء سے اب تک یا تو تاخیر سے پورے ہوئے ہیں یا زیر التواء ہیں، ان پر شروع کے وقت لاگت، ابھی کی لاگت اور مکمل اخراجات کی تفصیلات مانگی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سکول آف پبلک پالیسی کے سربراہ نے بیماری کے باعث چھٹی مانگی ہے جو دیدی ہے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے فیصلہ دے رکھا ہے اس لیے اگر رجسٹرار کو بلانا ہو تو سپریم کورٹ میں عدالت کا فیصلہ چیلنج کرنا پڑے گا، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے ختم نہیں کرسکتی، اپیل میں جانے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔