مالاکنڈ سے35 لاپتہ افراد کے مقدمے میں وزیراعظم پاکستان سے بطور چیف ایگزیکٹو فیڈریشن عدالتی فیصلے پر عملدرآمد با رے رپورٹ طلب، لاپتہ افراد کے حوالے سے قانون سازی نہ کرنے پر وفاقی سیکرٹری قانون و انصاف‘ چیف سیکرٹری اور سیکرٹری برائے وزیراعظم کو نوٹس جاری 17 جنوری تک جواب طلب ،کوئی ادارہ خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے وگرنہ معاشرہ تباہ و برباد ہوجائیگا‘مسلح افواج اگر قانون کی پاسداری نہیں کریں گی تو کوئی بھی نہیں کریگا‘جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

ہفتہ 11 جنوری 2014 07:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جنوری۔2014ء) سپریم کورٹ نے مالاکنڈ سے فوج کے ذریعے اٹھائے جانے والے35 لاپتہ افراد کے مقدمے میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے بطور چیف ایگزیکٹو فیڈریشن‘ وزیراعلی پرویز خٹک اور گورنر سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد رپورٹ جبکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے قانون سازی نہ کرنے پر وفاقی سیکرٹری قانون و انصاف‘ چیف سیکرٹری اور سیکرٹری برائے وزیراعظم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے 17 جنوری تک جواب طلب کیا ہے جبکہ مقدمے کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ مسلح افواج اگر قانون کی پاسداری نہیں کریں گی تو کوئی بھی نہیں کرے گا‘ انہیں آئین و قانون کاپابند بننا ہوگا‘ غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرکے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے‘ یہ سب آئین و قانون کی پاسداری نہ ہونے سے ہورہا ہے‘ کوئی بھی ادارہ آئین و قانون سے ماوراء نہیں‘ قانون سب کیلئے برابر ہے‘ کوئی ادارہ خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے وگرنہ معاشرہ تباہ و برباد ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے مالاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے یاسین شاہ وغیرہ کے مقدمے کی سماعت کی اس موقع پر عدالت نے کہا ہے کہ عدالت نے 10 دسمبر 2013ء کو حکم سات روز میں بندے پیش کرنے کا حکم دیا تھا‘ یاسین شاہ سمیت 35 لاپتہ افراد کو زبردستی اٹھانے میں مبینہ طور پر ملوث فوجی افسران اور سویلین افسران کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور اس کی رپورٹ رجسٹرار کو ارسال کی جائے‘ عدالتی حکم کے باوجود رپورٹ جمع کروائی گئی ہے اور نہ ہی عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا گیا ہے‘ حکومت نے معاملے کے حل کیلئے کمیٹی بھی قائم کی جس کے کام کرنے کے حوالے سے تاحال کوئی پیشرفت رپورٹ نہیں دی گئی صرف سات افراد پیش کئے گئے‘ لوگوں کو زبردستی اٹھانے کے معاملے پر موثر قانون سازی کا بھی کہا گیا تھا مگر اس حوالے سے بھی کوئی رپورٹ نہیں دی گئی جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑادیا گیا‘ کسی بھی شخص کو جبری طور پر اٹھانے اور قید میں رکھنے کے حوالے سے ملک میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

فوج نے بندے اٹھائے تھے اور یہ بات ثابت بھی ہوئی تھی‘ عدالت نے چیف ایگزیکٹو کی مداخلت کیبعد معاملے کے حل ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا تھا۔ ۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر ودیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے آرڈر کررکھا ہے کہج عدالتی حکم کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ اس طرح کی درخواست پہلے بھی دائر کی گئی تھی۔

طارق کھوکھر نے بتایا کہ درخواست آمنہ مسعود جنجوعہ نے دائر کی تھی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے چیمبر میں آرڈر کردیا تھا اب اس کا باقاعدہ بنچ میں بھی آرڈر جاری کردیتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ سات روز میں سب کچھ کرنا تھا آپ نے نہیں کیا‘ کمیٹی کب بیٹھے گی‘ کمیٹی کیا کرے گی او کیا نہیں کرے گی۔ جولائی 2013ء کا معاملہ چل رہا ہے پتہ نہیں لاپتہ افراد کا کیا بنے گا۔

محبت شاہ ابھی نہیں آئے کہ ان کو نوٹس نہیں ملا ہے۔ طارق کھوکھر نے بتایا کہ حکومت نے اس حوالے سے نظرثانی کی درخواست دائر کررکھی ہے جس میں عدالت سے فیصلے پر نظرثانی کی استدعاء کی گئی ہے۔ عدالت نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ سماعت کے بعد انسانی حقوق مدمہ میں 10 دسمبر 2013ء کو ایک جامع حکم جاری کیا گیا تھا۔ اس آرمی اتھارٹیز نے مالاکنڈ حراستی مرکز سے 35 افراد جن میں سے 7 پیش کئے گئے‘ یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ آرمی حکام اور دیگر کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھے‘ اس کے نتائج چیف ایگزیکٹو سمیت دیگر افسران کو بھگتنا ہوں گے۔

سات روز میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دیا گیا تھا اور رجسٹرار کے پاس رپورٹ بھجوانے کا کہا گیا تھا۔ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق کارروائی کا کہا گیا تھا۔ اس حکم پر عمل نہیں کیا گیا‘ بجائے اس کے کہ حکم پر عمل کیا جاتا‘ نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی جس جس میں اس بات کی اجازت مانگی تھی کہ اضافی دستاویزات داخل کرانے کی اجازت دی جائے۔

یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی اور جو لوگ غیر آئینی اور غیرقانونی اقدامات میں ملوث تھے‘ کیخلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی کا کہا گیا تھا جس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔ عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر نتائج کے حوالے سے پروسیڈنگ کی ضرورت ہے۔ ابتدائی طور پر نوٹس جاری کرنا چاہتے ہیں۔

جسٹس جواد نے پوچھا کہ کسے نوٹس دئیے جائیں اس پر کھوکھر نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو‘ فیڈریشن ‘ گورنر کے پی کے اور چیف ایگزیکٹو کے پی کے کو نوٹس جاری ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ اس کیلئے سیکرٹری وزیراعظم کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں۔ جو عدالتیں حکم پر عمل نہ کرنے کے حوالے سے جواب دیں اسی طرح سے چیف سیکرٹری کے پی کے کو بھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ وہ بھی عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے کے حوالے سے چیف ایگزیکٹو کے پی کے اور گورنر سے جواب لے کر عدالت میں پیش کریں۔

جسٹس جواد نے کھوکھر سے پوچھا کہ گورنر کا کام پاٹا میں ہے یا فاٹا میں‘ اس پر کھوکھر نے بتایا کجہ گورنر فیڈریشن کا نمائندہ ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 247 کے تحت گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں سیکرٹری قانون کو بھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کو کہا گیا ہے کہ وہ جواب دیں اس پر انہوں نے کہا کہ انہیں ہدایات کیلئے مزید وقت کی ضرورت ہے۔

چیف ایگزیکٹوز آف فیڈرل اور صوبائی بھی کمنٹس داخل کریں۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ اس وقت کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ جو کسی بھی شخص کو جبری طور پر قید میں رکھنے کیلئے اجازت دے یا ان ڈیکلیئر اٹارنی قرار دے سکے۔ پاٹا اور فاٹا ریگولیشنز میں بھی اس کی اجازت نہیں ہے۔ عدالت کی رائے یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات کو کنٹرول کرنے کیلئے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کسی کو زبردستی لاپتہ نہ کیا جاسکے۔

10 دسمبر 2013ء کی ہدایات کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ اس مسئلے پر سنجیدگی پر غور کے بعد سفارشات مرتب کرنے کی ضرورت تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ عدالت نے مختلف سماعتوں کے دوران ہدایات جاری کیں۔ طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک کمیٹی کے کام کے حوالے سے انہیں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی طارق کھوکھر نے 10 دسمبر کے عدالتی حکم نامے میں دو غلطیوں کی نشاندہی کی جنہیں درست کیا جاتا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کسی کو نہیں کہہ سکتے کہ ہم تو قانون کے پابند نہیں۔ آپ ہی جو آئین کے مطابق اپنے آپ کو پابند نہیں سمجھ رہے‘ غیر آئینی اور غیرقانونی کاموں میں ملوث ہیں وہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں۔ آئین کی پاسداری نہ ہونے سے ایسا ہورہا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری کیا گیا ہے اس میں بھی مزید ترامیم کی جارہی ہیں۔

جسٹس جواد نے کہاکہ آپ ہمیں ابھی بتادیں رات کو کسی نے سوچا ہے صبح اس کا قانون ببن گیا ہے جہاں پر قانون سازی کی ضرورت ہے وہاں تو کی جاتی ہم تو قانون سازی نہیں کرسکتے۔ راتوں رات بھی قانون سازی کی جاتی رہی۔ 12 جولائی کو پہلی بار ہم نے کہا تھا کہ ہم حقیقی طور پر بہت ڈسٹرب ہیں۔ ایک حکومت آگئی ہے اس معاملے کا حل نکالنے کی یہی بات آپ نے 12 جولائی 2013ء کو بھی کہی تھی اور 10جنوری 2014ء کو بھی حکومت کا وہی بیان ہے۔

عدالت کیوں اس بیان کو تسلیم کرے۔ حکومت کو سمجھادیں آپ کو وقت دے دیتے ہیں۔ شاہ خاور نے بتایاکہ حکومتی جواب خفیہ ہے اسلئے اسے عام نہ کیا جائے اس پر عدالت نے وہ جواب خود پڑھا۔ کمیٹی کے حوالے سے اور دیگر معاملات بارے ابھی قانون سازی جاری ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کی بجائے شاہ خاور پیش ہوئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس جواب میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔

شاہ خاور نے بتایا کہ اس معاملے پر چیف ایگزیکٹو نے اہم ترین اجلاس کئے ہیں جن میں تمام متعلقہ حکام بھی پیش ہوئے ہیں۔ دن رات کام ہورہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پچھلے چھ ماہ سے یہی سن رہے ہیں۔ یہ تو گڈرئیے کی کہانی لگ رہی ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ شیر آگیا شیر آگیا‘ لوگ آئے تو شیر نہ تھا‘ دو تین بار ایسا ہوا‘ اصل میں ہی شیر آگیا اور سارے جانوروں کو چیر پھاڑ دیا۔

اداروں کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ ہم آپ کی ہر بات مانتے چلے آرہے ہیں اس جواب میں کچھ بھی نہیں ہے۔ شاہ خاور نے کہا کہ آپ وقت دے دیں اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو وقت دے دیتے ہیں۔ طارق کھوکھر کی استدعاء پر انہیں وقت دیا تھا کہ وہ پتہ کرکے بتائیں کہ کمیٹی کیا کررہی ہے تاہم بعدازاں شاہ خاور پیش ہوئے۔ قانون سازی کے حوالے سے جو پیشرفت ہوئی ہے اس کے حوالے سے شاہ خاور جواب دیں۔

عدالت نے 10 دسمبر 2013ء کے فیصلے کی روشنی میں حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ شاہ خاور نے بتایا کہ رجسٹرار کے دفتر میں 19 دسمبر 2013ء کو رپورٹ جمع کرادی گئی تھی وہ رپورٹ عدالتی فائل پر نہیں ہے۔ شاہ خاور نے کانفیڈینشل رپورٹ جمع کروائی ہے۔ رپورٹ کو سربہمر کرکے رجسٹرار کے حوالے کیا جاتا ہے۔ عدالت نے محسوس کیا ہے کہ عبوری رپورٹ میں کوئی نئی چیز نہیں ہے اور عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔

ہم نے محسوس کیا تھا کہ حکومت سنجیدہ ہے اور قانون سازی کرنا چاہتی ہے مگر تاحال ایسا نہیں کیا گیا اور وفاق نے کئی جوابات داخل کرائے۔ ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ یہ فاٹا اور پاٹا ریگولیشنز لاپتہ افراد کے حوالے سے اہم سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔ ہم نے بار بار وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا تھا کہ آرٹیکل 9 ‘ 10 کا خیال رکھا جائے جس کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی قانون کے حراست میں نہیں رکھا جاسکتا۔

یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ آرٹیکل 5 کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ دوسرے تو قانون پر عمل کریں وہ نہ کرے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر فورسز آئین کی پاسداری نہیں کریں گی تو کوئی بھی نہیں کرے گا انہیں بھی پاسداری کرنا ہوگی اور اس میں کس کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس معاملے کی مزید سماعت 20 جنوری تک ملتوی کررہے ہیں‘ متعلقہ حکام جواب داخل کریں‘ مزید احکامات ان جوابات کی روشنی میں جاری کئے جائیں گے۔

ہمارے حکم پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے رپورٹ 17 جنوری تک جمع کروائی جائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس حکومت سے بات کریں۔ ہم نے آئین و قانون کی بات کرنی ہے ہمیں صرف یہی ایک طریقہ آتا ہے۔