مشرف کا معاملہ عدالتوں میں ہے عدلیہ ہی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے البتہ 17ویں ترمیم میں دیاگیا استثنیٰ 18ویں ترمیم نے ختم کردیاہے اب آئینی ماہرین اس کی تشریح کریں، مولانافضل الرحمن،قانون سازی کرکے تمام طبقات کو حقوق دیئے جاسکتے ہیں، دودہائیوں سے جاری بین الاقوامی دباؤ کے باعث ملک میں امن وامان ناپید ہوا، طالبان سے مذاکرات نازک صورتحال اختیار کرگئے، قیام امن کی حکمت عملی میں دونوں جانب سے رکاوٹیں ہیں، طاقت کا استعمال ہوا تو ملک کی بدقسمتی ہوگی،خیبرپختونخواہ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں،ملک مزید کسی تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا، کراچی سے خیبر تک پورا ملک بے بسی کی تصویر بناہے، دنیا سے تصادم نہیں چاہتے لیکن اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ یا سودے بازی نہیں کرسکتے، کشمیر گلگت بلتستان متنازعہ علاقے ہیں صوبے تصور کرکے بھارتی موقف کو درست تسلیم کیا جاسکتانیشنل پریس کلب دورہ کے موقع پر میڈیا بریفنگ، نومنتخب صدر ،سیکرٹری و دیگر کو مبارکباد

بدھ 8 جنوری 2014 04:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8جنوری۔2014ء)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ وقت آگیاہ کہ تمام طبقات کے حقوق کیلئے قانون سازی کی جائے، گزشتہ دو دہائیوں سے بین الاقوامی دباؤ کا شکار ہیں جس کے باعث ملک میں امن وامان پیدا ہوچکاہے ، طالبان سے مذاکرات نازک صورتحال اختیار کرگئے ہیں، قیام امن کی حکمت عملی میں دونوں جانب سے رکاوٹیں آرہی ہیں، طاقت کا استعمال ہوا تو ملک کی بدقسمتی ہوگی، خیبرپختونخواہ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں،این جی اوز صوبائی حکومت چلارہی ہیں، ملک کسی سیاسی یا ادارہ جاتی تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا، کراچی سے خیبر تک پورا ملک بے بسی کی تصویر بنا ہواہے، کسی کی جان محفوظ نہیں، ٹارگٹ کلنگ و بھتہ خوری کا کاروبار بند کرنا بظاہر مشکل نظر آرہاہے، دنیا سے تصادم نہیں چاہتے لیکن اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ یا سودے بازی نہیں کرسکتے، کشمیر گلگت بلتستان متنازعہ علاقے ہیں صوبے تصور کرکے بھارتی موقف کو درست تسلیم کیا جاسکتا، مشرف کا معاملہ عدالتوں میں ہے عدلیہ ہی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے البتہ 17ویں ترمیم میں دیاگیا استثنیٰ 18ویں ترمیم نے ختم کردیاہے اب آئینی ماہرین اس کی تشریح کریں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے دورہ کے موقع پر میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر نومنتخب صدر شہریار خان و دیگر عہدیداروں نے سربراہ جمعیت کو پریس کلب آمد پر خوش آمدید کہا۔ مولانافضل الرحمن نے کہاکہ میڈیا ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتاہے انہوں نے پریس کلب کے صدر شہریار خان، سیکرٹری جنرل طارق چوہدری سمیت دیگر نومنتخب عہدیداروں کومبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہر کڑے وقت میں سیاست و صحافت نے ایک دوسرے کو سہارا دیاہے انہوں نے کہاکہ ملک طویل عرصے سے آزمائشوں کا شکار ہے اور اب بھی مشکلات سے گزررہاہے انہوں نے کہاکہ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک بین الاقوامی دباؤ میں ہے جس کے باعث ملک میں امن وامان ناپید ہوچکاہے اور ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے۔

کراچی سے پشاور تک پورا ملک بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے اور کاروباری طبقہ بندوق کے نشانہ پر ہے۔ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ ایسا کاروبار بن چکاہے جس پر قابو پانا فی الوقت مشکل نظر آرہاہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ پانچ سالوں میں پارلیمانی رخ کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اب حکومت کے رخ کو تبدیل کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ملک میں امن وامان کی صورتحال، معیشت، روپے کی قدر کی بحالی، تجارتی خسارے اور افراط زر کی کمی سے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور وقت ہے کہ اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم دنیا کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے مگر اپنی خود مختاری و آزادی پر سمجھوتہ برداشت نہیں کرسکتے اس سلسلے میں پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک سیاسی جماعتوں یا اداروں میں تصادم کا تحمل نہیں ہوسکتا اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر شدت پسندی کی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے اب وقت آگیاہے کہ تمام مکاتب فکر کو مطمئن کیا جائے اور آئین پاکستان کے ذریعے قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں تمام طبقات کو ان کے حقوق مل سکیں ۔

ایک سوال کے جواب میں مولانافضل الرحمن نے کہاکہ مشرف کے معاملے نے پورے میڈیا کو یرغمال بنالیاہے اب میڈیا دیگر مسائل پر توجہ دے اس مسئلے پر مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے معاملہ عدالت میں ہے اور عدلیہ ہی کے ذریعے اپنے انجام کہ پہنچے گا ان کے ملک میں رہنے یا باہر جانے کا فیصلہ کسی اور نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت مذاکرات اب نازک صورتحال اختیار کرگیا ہے اب صرف سطحی بیانات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا حالانکہ آل پارٹیز کانفرنس میں عسکری و سیاسی قیادت نے مذاکرات کو ترجیح قرار دیا تھا انہوں نے کہاکہ مذاکرات ہوں یا نہ ہوں اصل مسئلہ یہ ہے کہ قیا م امن کی حکمت عملی رکاوٹیں آرہی ہیں جو کبھی طالبان کی طرف سے آتی ہیں اور کبھی حکومت یہ رکاوٹیں کھڑی کردیتی ہے جس کی وجہ سے مسئلہ طوالت اختیار کررہاہے ۔

ایک سوال کے جواب میں مولانافضل الرحمن نے کہاکہ طالبان کیخلاف طاقت کا استعمال ملک کی بدقسمتی ہوگاہمیں اس معاملے پر انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ انہوں نے سابق صدر مشرف کے 3نومبر کے اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک جزوی مسئلہ تھا اس وقت وزیراعظم اور کابینہ موجود تھی جبکہ 12اکتوبر1999ء کو پورے نظام کو لپیٹ دیاگیا تھا اس مسئلے کو آئین کے تحت حل کرنا چاہیے کیونکہ 17ویں ترمیم کو 18ویں ترمیم نے ختم کردیاہے اور اس نے استثنیٰ ختم کردیاہے اب آئینی ماہرین کو اس معاملے کی تشریح کرنا چاہیے ۔

انہوں نے کہاکہ جمعیت علمائے اسلام (ف)کا خیبرپختونخواہ کے حوالے سے موقف سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیاگیا ہے ہم صرف خیبرپختونخواہ کی حکومت کے متعلق نہیں بات کرتے بلکہ پورے ملک میں امن وامان کی بات کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ آج صوبہ کی صورتحال الیکشن سے پہلے سے زیادہ خوفناک و خطرنا ک ہے جہاں عملاً کوئی حکومت نہیں ہے این جی اوز معاملات چلا رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ نیٹو سپلائی کے مخالف ہم بھی ہیں مگر ایک طرف ملک کو نیٹو سپلائی روکنے پر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کو اس کے عوض ڈالرز ملتے ہیں جوکہ تشویشناک امر ہے۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ گلگت بلتستان اور جموں و کشمیر متنازعہ علاقے ہیں اور اس پر پاکستان کا یہی موقف ہے اگر ہم پارلیمنٹ کے ذریعے قراردادیں پاس کرتے پھریں اور آئینی حیثیت دیں تو پھر کیا ہم انڈیا کے موقف کو تسلیم کرلیں ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم چاہتے ہیں مسئلہ کو وہاں کی عوام کے امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کشمیر کمیٹی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہاکہ کمیٹی کے قواعد و ضوابط پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ وہ غیر موثر ہیں اور اس معاملے کو کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس میں اٹھائینگے۔ قبل ازیں خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے صدرنیشنل پریس کلب شہریار خان نے پریس کلب آمد پر مولانافضل الرحمن کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوری صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز نے ہمیشہ انتخابات ہوئے ہیں اور اس طرح کے اقدامات اٹھا کر ہم نے جمہوریت کی آبیاری کیلئے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔