فضل ربی لاپتہ کیس،ریاست لاپتہ افراد مقدمات میں شہریوں کو تحفظ دینے کی بجائے حقوق پامال کرنے میں مصروف ہے،یہ صورت حال ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ، لاپتہ افراد کے مقدمات نے ہماری نیندیں اڑا دی ہیں،ملوث افراد کیخلاف مقدمات درج کئے جائیں،لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو آئے ر وز جوابات دیکر ہم تھک گئے ہیں ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوحراستی مراکز کے انچارج اور وزارت دفاع کے اداروں کے اعلیٰ حکام کے بیانات حلفی جمع کرانے کی ہدایت، میجر محمد علی کی جانب سے بیان حلفی قواعد کے مطابق جمع نہ کروانے پر سخت برہمی کا اظہار

بدھ 8 جنوری 2014 04:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8جنوری۔2014ء)سپریم کورٹ میں فضل ربی لاپتہ کیس میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ شہریوں کو تحفظ دینے کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ریاست لاپتہ افراد کے مقدمات میں شہریوں کو تحفظ دینے کی بجائے حقوق پامال کرنے میں مصروف ہے۔

یہ صورت حال ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ جس مقدمے کو اٹھاتے ہیں اسی میں حساس اداروں کا عمل دخل نکل آتا ہے۔ لاپتہ افراد کے مقدمات نے ہماری نیندیں اڑا دی ہیں ۔ان مقدمات میں جو لوگ بھی ملوث ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق ضرور مقدمات درج ہونے چاہئیں۔ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو آئے ر وز جوابات دیکر ہم تھک گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

وزارت دفاع کے افسران راولپنڈی میں بیٹھ کر فضول رپورٹس اور جوابات بنا کر سپریم کورٹ میں جمع کرا دیتے ہیں اس سے کام نہیں چلے گا۔

عدالت نے کافی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اب یہ صبر کا دامن ہاتھ سے جاتانظر آرہا ہے ۔وزارت دفاع کی نقول سے کام نہیں چلے گا۔ وزارت دفاع آئندہ ہر سماعت پر کسی ذمہ دار افسر کو بھجوائے ۔انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کو ہدایت کی ہے کہ فضل ربی لاپتہ کیس میں مالاکنڈ شینگ وتی اور تیمر گرہ حراستی مرکز انچارج اور ملٹری انٹیلی جنس ،آئی ایس آئی اور پاک فوج کے اعلی حکام سے سیکرٹری دفاع کے دستخطوں سے آئندہ تاریخ سماعت پر بیان حلفی پیش کئے جائیں ۔

عدالت نے وزارت دفاع کے افسر میجر محمد علی کی جانب سے بیان حلفی قواعد کے مطابق جمع نہ کروانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے 24 جنوری کو جواب طلب کیا ہے ۔یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہ میں جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔اس دوران عدالت کو بتایا گیا کہ وزارت دفاع کے ایک افسر میجر محمد علی نے بیان حلفی جمع کروایا ہے تاہم یہ قواعد پر پورا نہیں اترتا جس پر عدالت نے بیان حلفی دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر عدالت کو دکھایا گیا تو بنچ میں موجود تینوں ججوں نے اتفاق رائے سے یہ بیان حلفی قواعد کے مطابق نہ ہونے پر مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ قواعد کے مطابق بیان حلفی نہیں ہے اس لئے اس کو بیان حلفی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل محمد عرفان کہاں ہیں وہ کیوں نہیں آتے ۔وزارت دفاع آئندہ ہر سماعت پر کسی ذمہ دار افسر کو بھجوایا کرے اس طرح کے افسران نے عدالت کا وقت ہی ضائع کیا ہے۔ راولپنڈی میں بیٹھ کر فضول رپورٹس بنوا کر بھجواتے رہتے ہیں اس سے کام نہیں چلے گا۔ فضل ربی کے والد خانزادہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کو لوگوں نے بتایا ہے کہ اس کے بیٹے کو پہلے حراستی تیمر گرہ دیر میں رکھا گیا ۔

بعد ازاں ان کو مالاکنڈ اور اب اس سے شنگ وتی سوات کے حراستی مرکز منتقل کیا گیا ہے ۔اس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کو ہدایت کی کہ ان حراستی مراکز کے انچارج کے بیانات حلفی حاصل کر کے عدالت میں جمع کرائے جائیں ۔عدالت نے انہیں مزید ہدایت کی ہے کہ ایم آئی ، آئی ایس آئی اور پاک فوج کا بیان حلفی سیکرٹری وزارت دفاع اپنے دستخطوں سے آئندہ تاریخ سماعت پر پیش کیا جائے۔

واضح رہے کہ فضل ربی کو16 جون2009 کو سنٹر پاک چیک پوسٹ کے قریب سے اٹھایا گیا۔ایم آئی ،آئی ایس آئی اور پاک فوج نے اپنے پاس اس کی موجودگی سے انکار کیا ہے۔ وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل گروپ کیپٹن محمد عرفان نے رپورٹ دی تھی جس کو سابق تاریخ سماعت پر مسترد کر دیا گیا تھا اور محمد عرفان کو عدالت نے ہدایت کی تھی کہ وہ ان افسران کا بیان حلفی پیش کریں جنہوں نے انہیں بتایا تھا کہ ایم آئی ،آئی ایس آئی اور پاک فوج کے پاس فضل ربی موجود نہیں ہے تاہم محمد عرفان دوبارہ جواب دینے کی بجائے پیش نہیں ہوئے اور میجر محمد علی نے بیان حلفی بھجوایا گیا جس کو بھی عدالت نے مسترد کر دیا ۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت24 جنوری تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :