طالبان سے مذاکرات کے بارے میں و اضح پالیسی اپنائے،سرحد پار دہشت گردی کاسلسلہ بند کیا جائے، حکومت بلوچستان کی صورتحال پر کنٹرول کرے ورنہ حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے،حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے حکومت سے سینٹ میں مطالبات

منگل 7 جنوری 2014 07:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7جنوری۔2014ء)سینٹ میں ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں و اضح پالیسی اپنائے اور سرحد پار دہشت گردی کاسلسلہ بند کیا جائے، حکومت بلوچستان کی صورتحال پر کنٹرول کرے ورنہ حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ پیر کو سینیٹر رضا ربانی کی ملک میں امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 2014ء شروع ہوگیا ہے افغانستان سے غیر ملکی فورسز منتقل ہوجائینگی، کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو طالبان کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا اجلاس کے فوری بعد دہشت گردوں نے حکومتی پیشکش کو مسترد کردیا ۔

قومی اتفاق کی خاطر طالبان سے مذاکرات کے عمل کو تسلیم کیا ،طالبان نے بیان دیا کہ فوجی کارروائی ہمارے خلاف کی جا رہی ہے، طالبان نے بیان اور عملی اقدامات کے ذریعے بیان دیا ہے کہ بات چیت نہیں ہوگی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا کہ افغانستان میں کتنی افواج انخلاء کے بعد رہے گی ۔ حکومت کو نوٹس لینا چاہیے تاکہ ملکی سکیورٹی صورتحال خراب نہ ہو کیونکہ ہمارے پاس مزید گنجائش نہیں ہے ۔

طالبان کے افغانستان میں مضبوط ہونے سے یہاں بھی طالبان مضبوط ہونگے ۔ ملک میں خراب سکیورٹی صورتحا ل کی سب سے بڑی وجہ سرحد پار سرگرمیاں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ فضل اللہ کے ٹی ٹی پی کے سربراہ بننے کے بعد پاکستان سمجھتا ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کا نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کی خفیہ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں جبکہ افغانستان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس سے ہمیں جلد از جلد کراس بارڈر دہشتگردی کے معاملے کو حل کرنا چاہیے ۔

اس معاملے کا تعلق سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ہے ، اس معاملے کو حل کرنے کے لیے سیاسی نظام ہونا چاہیے۔سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات پر نظر ر کھے ۔ سینیٹر عبدالرؤف نے کہا کہ ملک کے حالات خراب ہیں سیاسی جماعتیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ عام انتخابات کے وقت جلسے جلوسوں میں کیا وعدے کئے گئے اور کتنے اور کتنے پورے کئے گئے بلوچستان میں آج بھی سکولوں میں قومی پرچم نہیں لہرائے جاتے ۔

وزراء بلوچ علاقوں میں دورے نہیں کرسکتے صورتحال کا ادراق نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہوں گے کوئٹہ سے ہمسائیہ ممالک میں مداخلت ہورہی ہے امن وامان کی صورتحال پر توجہ نہیں دی جارہی ہے خارجہ پالیسی اس ایوان کی مرہون منت نہیں، ہم ہمسایہ ممالک میں مداخلت اور وہاں سے یہاں مداخلت کیخلاف ہیں عوام مایوس ہوتے جارہے ہیں اس لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے ا یم کیو ایم کے سینیٹر کرنل ریٹائرڈ طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ملک میں وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں اور کسی جگہ بھی حکومت کی عملداری نظر نہیں آتی نہ ہی حکومت کا کوئی ویژن اور دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کیلئے کوئی کوشش نظر آرہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری امن وامان کی بدترین صورتحال کی وجہ سے سابق چیف جسٹس نے بھی بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ کردیا ہے جو کہ حالات کی سنگینی کی غمازی کرتا ہے ۔

طاہر مشہدی کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دس ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا ہے لیکن قتل وغارت اوربھتہ خوری کی وارداتیں ابھی بھی جاری ہیں تو پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کن لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور اگر ان لوگوں کو گرفتار کیا ہے تو وہ بے گناہ ہے تو انہیں کس جرم میں بند کررکھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام فاٹا کے عوام کو بھلا دیا ہے اور وہ حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے اس کے علاوہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی، ملک میں چھ دفعہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے جس میں غریب عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ۔

سینیٹر خالدہ پروین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ایوان میں غریب عوام کیلئے کچھ نہیں کیا گیا اور انہوں نے ماضی میں ارکان پارلیمنٹ کی تقاریر پڑھ کر دیکھی ہیں وہ بھی وہی رونا روتے تھے جو آج ہم رو رہے ہیں 1971ء میں ارکان پارلیمنٹ کے وہی گلے شکوے تھے جو آج ہمارے ہیں اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان معاملات کو سنجیدگی سے دیکھے اور اس پر کارروائی کرے ۔

سینیٹر شاہی سید کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت حالات کی خرابی کی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ حالات کی ذمہ داری گزشتہ حکومتوں کی پالیسیاں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا لیکن حکومت نے تاحال اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا حکومت چاہے تو مولانا سمیع الحق یا مولانا عمران خان کے ذریعے مذاکرات کرے لیکن ہمیں امن چاہیے چاہے جس کے ذریعے بھی آئے ۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ جمہوری دور میں عوامی نیشنل پارٹی کو مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لئے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی بھی جمع کرانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اس طرح یہ جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے بھی بری ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کو ہی دہشت گردی نشانہ بنا رہے ہیں جو کہ ستم ظریفی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار نے مقامی حکومتوں کے انتخابات کیلئے کاغذات جمع کرائے تھے، اگلے ہی روز طالبان کی جانب سے ان کے گھر پرچی پھینکی گئی اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں ۔

سینیٹر صالح شاہ کا کہنا تھا کہ ایوان میں آج تک غریب آدمی کیلئے کیاکیا گیا ہے، سیاسی جماعتیں صرف ایک دوسرے کو ہدف تنقید بناتی ہیں اس کے علاوہ ایوان میں کچھ نہیں ہوتا، گزشتہ حکومت کے دور میں 12 طالبان نے 300 کے قریب مسلح فوجی جوانوں اور افسران کو اغواء کرلیا تھا اسی طرح 300 مسلح طالبان بنوں جیل پر حملہ کرکے اپنے تین سو ساتھیوں کو رہا کروالیتے ہیں کیا یہ دہشتگردی آفاقی ہے یا وفاقی ہے ۔