تین نومبر کے اقدام کے حوالے سے آئین کے مطابق پرویز مشرف کے خلاف کیس سول کورٹ میں چل سکتا ہے اگر فوجی جرائم ہوتا تو ملٹری کورٹ میں کیس چلتا، سید خورشید احمد شاہ،آئندہ ا سمبلی اجلاس میں ضرور شرکت کریں گے اگر حکومت تماشا کرے گی تو اپوزیشن بھی تماشا کرے گی۔ جمہوری ادوار میں جتنے بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ مشاورت سے کئے جاتے ہیں ، سیاستدان نہیں ڈرتا سیاستدان مشکلات سے نہیں بھاگتا، پیپلزپارٹی لانگ مارچ اور سیاسی محاذ آرائی پر یقین نہیں رکھتی، پریس کانفرنس

ہفتہ 4 جنوری 2014 07:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4جنوری۔2014ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ تین نومبر کے اقدام کے حوالے سے آئین کے مطابق پرویز مشرف کے خلاف کیس سول کورٹ میں چل سکتا ہے اگر فوجی جرائم ہوتا تو ملٹری کورٹ میں کیس چلتا، آئندہ ا سمبلی اجلاس میں ضرور شرکت کریں گے اگر حکومت تماشا کرے گی تو اپوزیشن بھی تماشا کرے گی۔

جمہوری ادوار میں جتنے بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ مشاورت سے کئے جاتے ہیں ، سیاستدان نہیں ڈرتا سیاستدان مشکلات سے نہیں بھاگتا، پیپلزپارٹی لانگ مارچ اور سیاسی محاذ آرائی پر یقین نہیں رکھتی،جمعہ کو نیشنل پریس کلب میں نیشنل پریس کلب کے نو منتخب عہدیداروں کو مبارکباد دیتے ہوئے قومی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ سیاستدان اور میڈیا کا جمہوریت کے تسلسل کے لئے بہت بڑا کردار ہے کیونکہ پرنٹ میڈیا کی جتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ نہیں کیونکہ میں آج بھی مولانا عبدالکلام کی تحریریں پڑھتا ہوں گو کہ الیکٹرانک میڈیا اپنی جگہ انہوں نے کہا کہ سیاستدان اور فوجی آمر میں بہت فرق ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

سیاستدان میں برداشت ہوتی ہے جبکہ فوج آمر اس سے عاری ہوتا ہے انہوں نے کہا ہے کہ غلام محمد مرزا‘ سکندر مرزا‘ ایوب خان‘ یحیٰ خان ‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف ان تمام فوجی آمروں کی سوچ ایک ہی تھی کہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کی جائیں اور ملک میں اپنے اقتدار کو طول کیاجائے۔ فوجی آمروں کا سیاستدانوں کی طرح ویژن نہیں ہوتا اور نہ ہی سیاسی مقابلہ کرنے کیلئے جرات ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف عدالت کا سامنا کرنے کی بجائے ہسپتال جانے کو ترجیح دی۔

انہوں نے کہا ہے کہ جب فوجی فوج میں بھرتی ہوتا ہے تو اسے پہلے دن اردلی مل جاتی ہے جبکہ سیاستدان لاٹھیاں کھا کر کسی منصب پر جاتا ہے انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو دل کی تکلیف ہوئی تو وہ الله تعالیٰ بہتر جانتا ہے انہوں نے کہا کہ جب پاکستان ٹوٹا تو یحیٰ خان فوجی آمر تھا اور ان کے ساتھ جنرل حمید روتا تھا کہ انہیں پنڈی سے باہر تبادلہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا ہے کہ سیاستدان نہیں ڈرتا سیاستدان مشکلات سے نہیں بھاگتا ‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کو خطرہ ہونے کے باوجود وہ سامنے آئیں اور انہوں نے حالات کا مقابلہ کیا اور وہ شہید ہوگئیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی حکومت تو مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتی ہیں میڈیا نے جمہوریت کی لئے بے بہا قربانیاں دی ہیں اس کے باوجود کہ انہوں نے وزیراعظم نہیں بننا۔

اس کے باوجود جمہوریت کیلئے ساتھ چلتے ہیں اور ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ بلاول بھٹو کے بیان کے حوالے سے ایم کیو ایم کے ردعمل کے حوالے سے کہا کہ ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ ہے اور وہ اپنے اوپر الزام تراشی کس طرح کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ اجلاس میں ضرور شرکت کریں گے اگر حکومت تماشا کرے گی تو ہم اپوزیشن بھی تماشا کرے گی۔

انہوں نے کہا ہے کہ جمہوری ادوار میں جتنے بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ مشاورت سے کئے جاتے ہیں جبکہ فوجی آمر ملک کے فیصلے کرتا ہے۔ بلاول بھٹو کے حوالے سے انہوں نے کہا ہے کہ وہ نوجوان ہیں جب وہ پارلیمنٹ میں آئیں گے تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ مفاہمتی پالیسی کے تحت چلیں گے جب ہم جوان تھے تو ہم بھی اس طرح کے بیان دیتے تھے انہوں نے کہا ہے کہ اگر پرویز مشرف کے خلاف بارہ اکتوبر سے ٹرائل چلتا تو کوئی بھی شخص سزا سے نہ بچ نکلتا اس میں اس وقت کے ججز بھی شامل ہیں۔

تین نومبر کے پرویز مشرف کے اقدام سے پارلیمنٹ جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ انہوں نے کہاہے کہ تین نومبر کے اقدام کے حوالے سے آئین کے مطابق پرویز مشرف کے خلاف کیس سول کورٹ میں چل سکتا ہے اگر فوجی جرائم ہوتا تو ملٹری کورٹ میں کیس چلتا۔ انہوں نے کہا ہے کہ سیاستدانوں نے برداشت کا مادہ رکھا اور اس کا مظاہرہ کیا تو ملک میں جمہوریت چلے گی پیپلزپارٹی لانگ مارچ اور سیاسی محاذ آرائی پر یقین نہیں رکھتی بلکہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ صمام بخاری نے کہا ہے کہ ملک میں جاری جمہوریت میں جتنا سیاستدانوں کا حصہ ہے اس سے زیادہ میڈیا کا کردار ہے۔