عسکریت پسند آئین کو تسلیم اور بات چیت کے آغاز سے پہلے تحفظ چاہتے ہیں،مولانا سمیع الحق، ہمارے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو فائدہ امریکہ کو بھی ہو گا،امریکہ کی مشاورت سے ہم یہ عمل شروع کریں تاکہ وہ راستے میں سبوتاژ نہ ہو، طالبان کو ان کے نظام کے تحت انصاف کا اختیار دیدیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے ،انٹرویو

جمعرات 2 جنوری 2014 04:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2جنوری۔2014ء)جمعیت علماء اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ عسکریت پسند آئین کو تسلیم کرتے ہیں اور بات چیت کے عمل کے آغاز سے پہلے حکومت سے تحفظ کی یقین دہانی چاہتے ہیں،اگر ہمارے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو فائدہ امریکہ کو بھی ہو گا۔ افغانستان میں اس کے لیے راہیں آسان ہو جائیں گی۔ وہ بھی وہاں مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔

ہم سب کی اپیل یہ ہے کہ امریکہ کی مشاورت سے ہم یہ عمل شروع کریں تاکہ وہ راستے میں سبوتاژ نہ ہو،اگر ہم طالبان کو ان کے نظام کے تحت انصاف کا اختیار دیدیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے ۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے انہیں شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کا ’ٹاسک‘ دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ وہ شدت پسندوں کو مذاکرات شروع کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ جلد شدت پسندوں سے رابطہ کرنے کی کوششیں شروع کر دی جائیں گی۔تاہم جمعیت کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ کس طرح ہوگا اس کا خاکہ ابھی ان کے ذہن میں نہیں۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف سے ان کی ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کی بات چیت میں وزیراعظم کو مذکرات نا شروع ہونے سے متعلق مشکلات اور قبائلی علاقوں میں چھپے عسکریت پسندوں کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔

سمیع الحق کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذاکرات کے دوران امریکہ سے ڈرون حملے نا کرنے کی یقین دہانی لیں جو اس عمل کے آغاز اور کامیابی کی ضامن ثابت ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو فائدہ امریکہ کو بھی ہو گا۔ افغانستان میں اس کے لیے راہیں آسان ہو جائیں گی۔ وہ بھی وہاں مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔

ہم سب کی اپیل یہ ہے کہ امریکہ کی مشاورت سے ہم یہ عمل شروع کریں تاکہ وہ راستے میں سبوتاژ نہ ہو ۔جے یو آئی (س) کے رہنما کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے مخصوص عدالتی نظام میں شدت پسندوں کی خواہش کے مطابق ترمیم سے بھی معاملات بڑی حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کم از کم ہم ان کے علاقوں میں کہہ دیں کہ شریعت کے مطابق عدالتی فیصلے کرو۔ آپ کو آزادی ہے کیونکہ اب بھی وہاں پاکستانی عدالتیں اور نظام نہیں ہے تو پورے ملک میں امن ہو جائے گا۔ تو اس میں کیا مضحکہ خیز ہے۔