طالبان سے مذاکراتی عمل،مولانا سمیع الحق نے ابتدائی رابطے شروع کردیئے،حکومت کو دہشت گردی کیخلاف جنگ سے فوری نکلنے،ڈرون حملوں پر انٹیلی جنس شیئرنگ کے خاتمہ اور صرف مذاکرات پرتوجہ مرکوز رکھنے کی تجاویزدیدیں،تجاویز پر عملدرآمد میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے تو کنارہ کشی اختیار کرلیں گے،ذرائع،ڈرون حملوں کا سلسلہ نہیں تھمتااور فوجی آپریشن کی باتیں بھی گردش کرتی رہتی ہیں تو مذاکراتی عمل متاثر ہوگا،ترجمان جے یو آئی

جمعرات 2 جنوری 2014 04:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2جنوری۔2014ء)جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے حکومت کے طالبان سے مذاکراتی عمل کیلئے ابتدائی رابطے شروع کردیئے ہیں اور انہوں نے حکومت کو بھی اس مذاکراتی عمل کے حوالہ سے اپنے تعاون کیلئے کچھ تجاویز بھی پیش کی ہیں کہ حکومت دہشت گردی کیخلاف جنگ سے فوری نکلے،ڈرون حملوں پر انٹیلی جنس شیئرنگ کا خاتمہ اور صرف مذاکرات پرہی آمادہ رہا جائے،جبکہ جماعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ہماری تجاویز پر عملدرآمد میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے تو پھر مذاکراتی عمل سے کنارہ کشی اختیار کرلیں گے، یہ بات واضح ہے کہ ملک میں امن صرف مذاکرات کے ذریعے قائم ہوسکتاہے۔

باوثوق ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے ملک میں امن وامان کی خاطر اور حکومت طالبان مذاکرات میں فعال کردار ادا کرنے کیلئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنا شروع کردیاہے اور اس سلسلے میں ابتدائی رابطے بھی شروع کردیئے ہیں تاکہ جلد از جلد مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جاسکے۔

(جاری ہے)

ذرائع نے مزید بتایاکہ مولانا سمیع الحق نے وزیراعظم سے یہ بھی گارنٹی مانگی ہے کہ مذاکراتی عمل کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ اس عمل کو سبوتاژ کر نے کی ہر قسم کی کارروائی سے گریز کیا جائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے حکومت دہشت گردی کی جنگ سے فوری جان چھڑائے اور امریکہ پر واضح کردے کہ ہمارا پورا ملک اس آگ میں جل رہاہے اور مذاکراتی عمل کے ذریعے ہی اس آگ کو ختم کیا جاسکتاہے جبکہ یہ بھی واضح کرے کہ ڈرون حملے نہ صرف ہماری ملکی سالمیت کیلئے خطرناک ہے بلکہ اس سے مذاکراتی عمل بھی سبوتاژ ہوا ہے اس لئے انہیں فوری روکا جائے کیونکہ پہلے بھی بقول حکومت کے مذاکراتی عمل کامیابی سے جاری تھا اور ایک ڈرون حملے نے سارے معاملے کو ختم کردیاجبکہ حکومت بھی ڈرون حملوں کے معاملے میں انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت کسی بھی قسم کا تعاون امریکہ یا اتحادی فورسز سے نہ کرے۔

ادھر جب اس سلسلے میں ”خبر رساں ادارے“ نے موقف جاننے کیلئے جمعیت علمائے اسلام (س) کے مرکزی رہنما اور ترجمان مولانا یوسف شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ ابتدائی رابطے کررہے ہیں اور لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات میں رکاوٹ بننے والے تمام عوامل سے جان چھڑائی جائے تب ہی مستقل امن بھی قائم ہوسکتاہے اور مذاکرات بھی اسی ذریعے سے نتیجہ خیز ثابت ہونگے اگر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جاری رہتی ہے، ڈرون حملوں کا سلسلہ نہیں تھمتااور مذاکرات کے ساتھ ساتھ فوجی آپریشن کی باتیں بھی گردش کرتی رہتی ہیں تو پھر اس سے نہ صرف مذاکراتی عمل متاثر ہوگا بلکہ مذاکرات کامیاب بھی نہیں ہوسکیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا یوسف شاہ نے کہاکہ ہم نے اپنی تجاویز حکومت کو پیش کردی ہیں اب حکومت پر ہے وہ کس حد تک ان پر عملدرآمد کرتی ہے۔ انہوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ حکومت ہماری تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے گی کیونکہ اسی طرح امن قائم ہوسکتاہے البتہ اگر حکومت نے ہماری تجاویز پر عملدرآمد نہ کیا تو پھر مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ جب تک مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے والے عوامل کو دور نہیں کیا جاتاتو پھر یہ کیسے کہا جاسکتاہے کہ مذاکرات کامیاب ہونگے۔