غداری کیس ،خصوصی عدالت کا سابق صدر پرویز مشرف کو آج ہر حال میں پیش کرنے کا حکم ،سمن جاری ہوچکے ہیں عدالت نہیں چاہتی کہ مشرف کی تضحیک ہو ، اگر پیش نہ کیا گیا تو پھر وارنٹ گرفتاری جاری کرینگے ، فی الحال پرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم نہیں دینا چاہتے ، عدالت کا حکم

جمعرات 2 جنوری 2014 04:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2جنوری۔2014ء) خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو آج جمعرات کو ہر حال میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سمن جاری ہوچکے ہیں عدالت نہیں چاہتی کہ ان کی تضحیک ہو ، اگر انہیں پیش نہ کیا گیا تو پھر وارنٹ گرفتاری جاری کرینگے ، ہم فی الحال پرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم نہیں دینا چاہتے ، عدالتی حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی کارروائی پر اعتراضات ہیں مگر اب ہم سماعت شروع کرچکے ہیں فیصلہ کرلیں حاضری کا کیا کرنا ہے ، پرویز مشرف کے کلاء کے مطابق بم رکھے جانے کی اطلاع تھی مجبور نہ کیا جائے کہ حاضری کے لئے کوئی حکم جاری کیا جائے ، ناقابل ضمانت جرم میں مجرم کی عدالت میں حاضری ضروری ہوتی ہے ، آئی جی نے بتایا کہ مشرف کے محفوظ سفر کے لیے 1000 سکیورٹی اہلکار تعینات کئے تھے ، مشرف سابق صدر ہیں ان کو گرفتار نہیں کیاجائے گا تاہم عدالتی حکم کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں انہیں عدالتی تحویل میں لیا جاسکتا ہے ، جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز مشرف کا جرم ناقابل معافی ہے گرفتاری کا حکم نہیں دینا چاہتے تاہم اگر وہپیش نہ ہوئے تو گرفتار کرنے کا حکم دینے پر مجبور ہونگے ، پرویز مشرف کا جرم ناقابل ضمانت ہے اس لئے عدالتی حکم پر ایک عام پولیس اہلکار بھی اسے گرفتار کرسکتا ہے ، انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں اور غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف خصوصی عدالت میں دوسری مرتبہ بھی پیش نہ ہوسکے‘ سابق صدر کے وکلاء کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ اور مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت چلانے کیلئے سماعت پانچ ہفتے تک ملتوی کرنے کیلئے دو درخواستیں دائر کردی گئیں۔

(جاری ہے)

مشرف کے فارم ہاؤس کے قریب سے دھماکہ خیز مواد برآمد۔ غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف دوسری مرتبہ بھی سکیورٹی خدشات کے پیش نظر سماعت کیلئے خصوصی عدالت میں نہ پہنچ سکے جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت میں دو درخواستیں دائر کی تھیں۔ ایک درخواست ان کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کیلئے دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے سابق صدر کی سکیورٹی کیلئے مناسب اقدامات نہیں کئے۔

ان کے فارم ہاؤس کے قریب سے گذشتہ پیشی سے قبل بھی دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا تھا اور دوسری مرتبہ بھی پیشی سے قبل دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا لہٰذا سابق صدر کو حاضری سے استثنیٰ دیا جائے جبکہ دوسری درخواست کی سماعت پانچ ہفتے کیلئے ملتوی اور ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کرنے کیلئے دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر کا اقدام بطور آرمی چیف وردی میں رہتے ہوئے کیا لہٰذا ان کیخلاف غداری مقدمہ کی کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلائی جاسکتی ہے لہٰذا اس سماعت کو پانچ ہفتے تک ملتوی اور اسے ملٹری کورٹ میں منتقل کیا جائے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سماعت شروع کی تو اس دوران سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاء کا بارہ رکنی پینل شریف الدین پیرزادہ کی سربراہ میں پیش ہوا جبکہ دوسری جانب اکرم شیخ ایڈووکیٹ اپنے ساتھی پراسیکیوٹرز کیساتھ پیش ہوئے۔

دوران سماعت جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ مشرف کا جرم ناقابل معافی ہے۔ ہمارے پاس ان کی حاضری کی استثنیٰ کی درخواست تو موجود ہے مگر انہوں نے حفاظتی ضمانت کیلئے رجوع نہیں کیا۔ انور منصور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مشرف کے وکلاء کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ خود ان کی گاڑی پر لاہور میں حملہ کیا گیا ہے اور ایک بغیر نمبر پلیٹ سیاہ رنگ کی کالے شیشے والی گاڑی نے ان کی گاڑی کو ہٹ کیا ہے جس سے گاڑی کو نقصان پہنچا ہے لیکن خوش قسمتی سے وہ اس حادثے میں محفوظ رہے ہیں۔

انہوں نے مقدمے کے اندراج کیلئے پولیس سے رجوع کیا ہے مگر مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ حکومت مسلسل دھمکیاں دے رہی ہے۔ کار حادثے کی مکمل تصاویر موجود ہیں۔ اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ ہمیں تصاویر دیں ہم کارروائی کریں گے۔ ہم نے سابق صدر اور آرمی چیف کی وجہ سے پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کئے وگرنہ ہم وارنٹ جاری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

اگر وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے تو عام پولیس اہلکار بھی انہیں گرفتار کرسکتا ہے اس پر انور منصور نے کہا کہ جب غداری کے حوالے سے عدالت کے قیام کا قانون بنا تھا تو اس وقت صرف تین ہائیکورٹس تھیں اب ہائیکورٹس کی تعداد 5 ہوچکی ہے اسلئے اب ججز بھی تین کی بجائے پانچ ہوں گے۔ قانون میں ترمیم ہونی چاہئے۔ آرٹیکل 9 کے تحت حکومت صرف وزیراعظم ہے۔

کیس پر فوجداری قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جو کوئی قانون توڑے گا۔ وہ غداری کا مرتکب ہوگا۔ آئین توڑنے والے کی مدد کرنے والے افراد بھی مجرم تصور ہوں گے۔ پارلیمنٹ قانون تو بناسکتی ہے اس میں ردوبدل نہیں کرسکتی۔ خصوصی عدالت کی سماعت کیلئے قواعد و ضوابط بھی خصوصی عدالت خود بنائے گی۔ وزیراعظم میرے موکل کیخلاف انتقامی اور تعصب کے جذبات رکھتے ہیں۔

آئین توڑنے میں اکیلے صدر نہیں وزیراعظم اور ان کی کابینہ بھی شامل تھی اس پر جسٹس عرب نے کہا کہ خصوصی عدالت میں تقرری کیلئے طریقہ کار آئین میں موجود ہے اس پر انور منصور نے کہا کہ مشاورت کی بھی کوئی شق موجود نہیں‘ نجانے چیف جسٹس سے کیوں مشاورت کی گئی۔ بس انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ سابق صدر کو بھی اس سماعت سے مکمل طور پر آگاہ رکھا جائے۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے پرویز مشرف کی موجودگی پر اصرار کیا اور کہا کہ اس کیس میں ان کی موجودگی انتہائی ضروری ہے۔ فرد جرم ان کی موجودگی میں ہی عائد ہوسکتی ہے اس پر عدالت نے پوچھا کہ پرویز مشرف کیوں نہیں آئے۔ ہم نے تو سکیورٹی کے انتظامات کرنے کا حکم دیا تھا اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ انہوں نے سیکرٹری داخلہ کو سکیورٹی انتظامات کیلئے خط تحریر کیا تھا اور فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے اس پر عدالت میں موجود احمد رضا قصوری نے کہا کہ سکیورٹی کے حوالے سے 4 ایشوز ہیں۔

ایک تو یہ عدالت کی سکیورٹی‘ ججز کی سکیورٹی‘ وکلاء کی سکیورٹی اور پھر پرویز مشرف کی سکیورٹی کے معاملات ہیں۔ یہ عدالت کم اور شیکسپیئر کا تھیٹر زیادہ نظر آتی ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ایک وقت میں صرف ایک وکیل ہی بات کرسکتا ہے۔ اس پر ا حمد رضا قصور ی نے کہا کہ ہر معا ملے پر مشرف نے الگ وکیل مقرر کیا ہے ان کے بارہ وکلاء عدالت میں دلائل دیں گے۔

کرسیوں کی حالت بھی انتہائی دگرگوں ہے۔ مشرف عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ انہیں بیرون ملک سمن موصول ہوا تو وہ رضاکارانہ طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔ اب تک بے نظیر بھٹو قتل کیس اور اکبر بگٹی قتل کیس سمیت 4 مقدمات میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے معاملہ حل کرانے کیلئے ثالثی کا کہا مگر ہم نے ملکی قانونی کو اختیار کیا ہے اور اسی کے تحت ریلیف کی بات کررہے ہیں۔

گذشتہ تاریخ کی طرح پرویز مشرف اس تاریخ پر بھی آنے کو تیار تھے مگر سکیورٹی معاملات کی وجہ سے وہ نہیں آسکے۔ ان کے گھر کے باہر اور گردونواح سے اب تک چار مرتبہ دھماکہ خیز مواد پکڑا جاچکا ہے۔ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرویز مشرف کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔ سکیورٹی معاملات پر تحفظات ہیں۔ سابق وزیراعظم لیاقت علی خان‘ راجیو گاندھی‘ شیخ مجیب الرحمن اور بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی ہونے کے باوجود مار دیا گیا۔

ایرانی پارلیمنٹ کو اڑادیا گیا۔ یہ عدالت خود ایسی جگہ پر قائم ہے جس تک پہنچنے کے بے شمار راستے موجود ہیں۔ اس پر عدالت نے پرویز مشرف کی سکیورٹی بارے پوچھا تو ڈی آئی جی سکیورٹی جان محمد نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے دستیاب وسائل کے مطابق سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے ہیں۔ ان کے پاس بلٹ پروف گاڑی موجود نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں پورے ملک میں کسی جگہ یہ گاڑی موجود بھی ہے یا نہیں اس پر عدالت نے سکیورٹی انتظامات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس حوالے سے خصوصی حکم جاری کریں گے۔

جسٹس عرب نے کہا کہ ہم خود سکیورٹی کے معاملات سے مطمئن نہیں ہیں بعدازاں عدالت نے انور منصور سے کہا کہ وہ عدالتی تشکیل اور دائرہ کار کے حوالے سے جو درخواستیں دائر کررکھی ہیں ان پر دلائل دیں۔ انہوں نے آرٹیکل 6‘ سپیشل کورٹ ایکٹ اور سنگین غداری ایکٹ سمیت دیگر قوانین پڑھ کر سنائے۔ ان کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقفے کی وجہ سے سماعت ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت کی تشکیل اس کے دائرہ کار کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات پر اپنے دلائل دیئے جس کو عدالت نے مسترد کردیا اور کہا کہ اب کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے لہذا اب ان درخواستوں کی کوئی اہمیت نہیں بعد ازاں عدالت نے سماعت آج جمعرات تک ملتوی کرتے ہوئے مشرف کو ہر صورت میں پیش کرنے کا حکم دیدیا ۔