سینیٹر بلال الرحمان کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ریاستی و سرحدی امور کا اجلاس

فاٹا اصلاحات کے متعلق وزیراعظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے حوالے سے بریفنگ فاٹا اصلاحات کی سمری کابینہ کو دوبارہ بھجوا دی گئی ہے جو آئندہ اجلاس میں فاٹا اصلاحات پر فیصلہ کرے گئی، سیکرٹری سیفران سی پیک منصوبے سے فاٹا کو ثمرات ملیں گے اور فاٹا میں سٹیٹ بینک کی برانچ، بی آئی ایس پی، بیت المال سمیت دیگر ادارے بھی ہوں گے فاٹا مین کرپشن کرنے والوں کے خلاف1972ء سے لیکر آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی، چیئرمین کمیٹی فاٹا میں1951،1961،1972اور1981میں مردم شماری کی گئی ہے، چیف شماریات

بدھ 22 فروری 2017 19:34

ْاسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 فروری2017ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ریاستی و سرحدی امور کو سیکرٹری سیفران نے بتایا کہ فاٹا اصلاحات کی سمری کابینہ کو دوبارہ بھجوا دی گئی ہے جو آئندہ اجلاس میں فاٹا اصلاحات پر فیصلہ کرے گئی، فاٹا اصلاحات کے بعد فاٹا کو 90ارب روپے سالانہ ملیں گے جس میں سی30فیصد بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، بلدیاتی الیکشن2017کے آخر میں ہوں گے، آئی ڈی پیز کی 90فیصد واپسی مکمل ہو چکی ہے جبکہ 10فیصد کی واپسی کیلئے 10اپریل تک کی توسیع دی گئی ہے، سی پیک منصوبے سے فاٹا کو ثمرات ملیں گے اور فاٹا میں سٹیٹ بینک کی برانچ، بی آئی ایس پی، بیت المال سمیت دیگر ادارے بھی ہوں گے، طالب علموں کا کوٹہ دوگنا اور تنخواہوں میں 20فیصد اضافہ ہو گا، چیف شماریات آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ جو چھے ماہ سے ملک سے باہر ہیں ان کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا جائے گا اور غیر ملکی قانونی اور غیر قانونی طور پر پاکستان مقیم ہیں ان کو مردم شماری میں شامل کیا جائے گا، 7 کروڑ پاکستانیوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، مردم شماری کیلئے ساڑھے پانچ کروڑ فارم پرنٹ کیے گئے ہیں، فاٹا کیلئے اب نئے فارم پرنٹ نہیں کیے جا سکتے اور اب مردم شماری 14مارچ سے حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق کی جائے گے، کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر بلال الرحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سیکرٹری سیفران، چیف شماریات سمیت اکثریتی ممبران کمیٹی نے شرکت کی، کمیٹی کو سیکرٹری سیفران نے فاٹا اصلاحات کی رپورٹ کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے متعلق وزیراعظم نے 2نومبر 2015میں کمیٹی بنائی، کمیٹی 7ایجنسیوں کے عوام اور جرگہ سے ملی، کمیٹی نے اس حوالے سے رپورٹ وزیراعطم کو 23اگسٹ کو پیش کی اور 24اگسٹ کو نیشنل سیکیورٹی کے سامنے پیش کی گئی اور اس کے بابت پارلیمنٹ میں اس پر بحث کی گئی، جرگہ کا سربراہ جج ہو گا اور گورنر کے ماتحت 22گریڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ہو گاجو فاٹا کے تمام معاملات کو دیکھے گا، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو فنڈز 90ارب روپے کے ملیں گے ان کی مانیٹرنگ کون کرے گا اس سے پہلے فاٹا کی ملنے والے فنڈز استعمال نہ ہونے کی وجہ سے مرکز کو واپس چلے جاتے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ فاٹا مین کرپشن کرنے والوں کے خلاف1972ء سے لیکر آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی، اس موقع پر چیف شماریات آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ فاٹا میں1951،1961،1972اور1981میں مردم شماری کی گئی ہے، فوج کی نگرانی میں14مارچ کو مردم شماری کا آغاز کیا جائے گا، بیرون ملک رہنے والے پاکستانی جو چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے بیرون ملک ہیں ان کو مردم شماری مین شامل نہیں کیا جائے گا جو غیر ملکی پاکستان میں قانونی و غیر قانونی طریقہ سے رہتے ہیں ان کی مردم شماری کی جائے گی جو پاکستانی اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں ان کی مردم شماری وہاں جہاں وہ عارضی طور رہتے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ فاٹا کے عوام زیادہ ملک کے دوسرے علاقوں میں آباد ہیں اگر ہمیں ڈیٹابیس ملے جائے تو ان کے شناختی کارڈز سے ان کو فاٹا میں مردم شماری کے حوالے سے فاٹا میں شامل کیا جا سکتا ہے، آصف باجوہ نے کہا کہ فاٹا میں قانونی پوزیشن کچھ اور جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں، سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر کمیٹی بنا کر بحث کی جائے، پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، فاٹا جب حالات ٹھیک ہوئے تو واپس اپنے علاقوں مین آئے تو وہ علاقے رہنے کے قابل نہیں تھے، سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ بیورو کریسی سے آزادی حاصل کرنا چاہتے اور آئین کے آرٹیکل 247کے ہوتے ہوئے فاٹا میں کوئی بہتری نہیں آسکتی، سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ فاٹا کی عوام نے ریفارمز مانگی تھیں اور آرٹیکل247کا خاتمہ مانگا تھا جو اصلاحات کی جا رہی ہیں، ان کے بارے میں فاٹا کی عوام کو علم ہونا چاہئے، سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ ان اصلاحات پر جو تنقید کی جارہی ہے اور جو تجاویز ہیں ان کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔

وقار)