اصلاحات کے تحت فاٹا کو 90 ارب روپے سالانہ ملیں گے ، فاٹا اصلاحات کی سفارشات کو دوبارہ وفاقی کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے، ا صلاحات کے عمل کے بعد فاٹا آئندہ پانچ سال تک وفاق کے زیر انتظام ہی رہے گا،سیکرٹری سیفران شہزاد ارباب

بدھ 22 فروری 2017 18:11

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 فروری2017ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی ریاستیں و سرحدی امور کو سیکرٹری سیفران نے بتایا کہ فاٹا اصلاحات کے تحت فاٹا کو 90 ارب روپے سالانہ ملیں گے جبکہ 20 ارب روپے سالانہ پہلے ہی مل رہے ہیں ، اس حوالہ سے وزیراعظم نے نومبر 2015ء کو کمیٹی بنائی، فاٹا اصلاحات کے حوالہ سے سفارشات کو دوبارہ وفاقی کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے، آئندہ کابینہ کے اجلاس میں اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ پر غور کیا جائیگا۔

فاٹا صلاحات کے عمل کے بعد فاٹا کا علاقا آئندہ پانچ سال تک وفاق کے زیر انتظام ہی رہے گا۔ کمیٹی کا اجلاس بدھ کو چیئرمین سینیٹر ہلال الرحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہا ئوس میں ہوا جس میں وفاقی سیکرٹری سیفران شہزاد ارباب، چیف شماریات، وزارت سیفران کے حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سیکرٹری سیفران نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے بعد فاٹا کو 90 ارب روپے سالانہ ملیں گے جس میں سے 30 فیصد بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کئے جائیں گے جبکہ فاٹا میں رواں سال کے آخر میں بلدیاتی انتخابات بھی کرائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بے گھر افراد کی 90 فیصد واپسی مکمل ہو چکی ہے جبکہ 10 فیصد کی واپسی کے عمل کو 10 اپریل تک توسیع دی گئی ہے۔ شہزاد ارباب نے کہا کہ فاٹا کو سی پیک منصوبے سے ثمرات ملیں گے جبکہ فاٹا میں سٹیٹ بینک کی برانچ کے علاوہ دیگر بینک بھی اپنی اپنی برانچوں کا آغاز کریں گے، فاٹا اصلاحات کے عمل کے بعد وہاں پر بی آئی ایس پی اور بیت المال سمیت ادارے بھی قائم ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا کے طلبہ کا کوٹہ دوگنا کر دیا جائے گا جبکہ فاٹا میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہو گا۔ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے نومبر 2015ء کو فاٹا اصلاحات کے حوالہ سے کمیٹی قائم کی، کمیٹی نے 7 ایجنسیوں کے عوام اور جرگہ سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے اس حوالہ سے رپورٹ وزیراعظم کو 23 اگست کو پیش کی اور 24 اگست کو نیشنل سکیورٹی کے سامنے پیش کی گئی اور اس کے بعد پارلیمنٹ میں بحث کی گئی۔

سیکرٹری نے کہا کہ فاٹا کے اصلاحات کے عمل کے بعد جرگہ کا سربراہ جج ہو گا جبکہ چیف ایگزیکٹو آفیسر فاٹا کے معاملات کو دیکھے گا۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فاٹا کو جو 90 ارب روپے کے فنڈز ملیں گے ان کی مانیٹرنگ کون کرے گا، اس سے قبل فاٹا کو ملنے والے فنڈز استعمال نہ ہونے کی وجہ سے مرکز کو واپس چلے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں کرپشن کرنے والوں کے خلاف 1972ء سے لے کر آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

اس موقع پر ادارہ چیف شماریات کے آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ فاٹا میں 1951ء، 1961ء، 1972ء اور 1981ء میں مردم شماری کی گئی، فوج کی نگرانی میں 14 مارچ کو مردم شماری کا آغاز کیا جائے گا، بیرون ملک چھ ماہ سے زیادہ رہنے والے پاکستانیوں کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے افراد کو بھی ان کے شناختی کارڈ کے شہر کے مطابق مردم شماری میں شامل کیا جائے گا، 7 کروڑ پاکستانیوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جبکہ مردم شماری کیلئے ساڑھے پانچ کروڑ فارم پرنٹ کئے جا چکے ہیں، حکومت کے نوٹیفیکیشن کے مطابق مردم شماری کی جائے گی، فاٹا کیلئے اب نئے فارم پرنٹ نہیں کئے جا سکتے۔

اس موقع پر سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر کمیٹی بنا کر بحث کی جائے، پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کی ضرورت نہیں۔ سینیٹر احمد حسنی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 247 کے ہوتے ہوئے فاٹا میں کوئی بہتری نہیں آ سکتی۔ سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ فاٹا نے اصلاحات مانگی تھیں اور آرٹیکل 247 کا خاتمہ مانگا ہے جو اصلاحات کی جا رہی ہیں ان کے بارے میں فاٹا کے عوام کو علم ہونا چاہئے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر تنقید کو سامنے رکھتے ہوئے اصلاحات کی جائیں۔ اجلاس میں وزارت سیفران کے ایڈیشنل سیکرٹری سمیت دیگر سیفران کے حکام نے بھی شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :