فاٹا میں مردم شماری کے طریقہ کار پرقائمہ کمیٹی ریاستیں و سرحدی امور کے سخت تحفظات

وفاقی ادارہ شماریات‘ فاٹا سیکرٹریٹ اور قائمہ کمیٹی کا جلد مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ آپریشنز کے نتیجہ میں بے گھر قبائلی خاندانوں کو شمار کرنے کا خصوصی طریقہ اختیار نہیں کرسکتے جو بے گھر خاندان جہاں ملے گا وہیں شمار کیا جائے گا‘ نادرا کے ڈیٹا بیس پر انحصار نہیں کرسکتے ، نادرا کے ڈیٹا بیس میں سات کروڑ افراد کے نام غائب ہیں،چیف شماریات

بدھ 22 فروری 2017 16:45

فاٹا میں مردم شماری کے طریقہ کار پرقائمہ کمیٹی ریاستیں و سرحدی امور ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 فروری2017ء) فاٹا میں مردم شماری کے طریقہ کار پر قائمہ کمیٹی برائے ریاستیں و سرحدی امور کے سخت تحفظات پر وفاقی ادارہ شماریات‘ فاٹا سیکرٹریٹ اور قائمہ کمیٹی کا جلد مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے‘ چیف شماریات آصف باجوہ نے قائمہ کمیٹی برائے سیفران میں واضح کردیا ہے کہ آپریشنز کے نتیجہ میں بے گھر قبائلی خاندانوں کو شمار کرنے کا خصوصی طریقہ اختیار نہیں کرسکتے جو بے گھر خاندان جہاں ملے گا وہیں شمار کیا جائے گا‘ نادرا کے ڈیٹا بیس پر انحصار نہیں کرسکتے کیونکہ نادرا کے ڈیٹا بیس میں سات کروڑ افراد کے نام غائب ہیں۔

اس امر کا اظہار انہوں نے بدھ کو قائمہ کمیٹی سیفران کے اجلاس کے دوران کیا قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی ہلال الرحمن کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔

(جاری ہے)

فاٹا اصلاحات اور قبائلی علاقوں میں مردم شماری کے طریقہ کار پر بریفنگ دی گئی۔ اراکین کمیٹی نے سینٹ ہول کمیٹی کی سفارشات کے بغیر فاٹا اصلاحات کی حتمی سمری تیار کرنے پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔

سیکرٹری سیفران ارباب شہزاد نے اجلاس میں تصدیق کی کہ فاٹا اصلاحات کی سمری کابینہ کو دوبارہ بھیج دی گئی ہے دسمبر 2017 تک فاٹا اصلاحات پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر سینٹ ہول کمیٹی کام کررہی ہے ابھی تک سفارات کو حتممی شکل نہیں دی جاسکی ہے۔ قبائلی اراکین پارلیمنٹ فاٹا کے بارے میں قانون سازی سے آگاہ ہی نہیں ہیں سیکرٹری سیفران نے کہا کہ فاٹا اصلاحات حرف آخر نہیں ہیں بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے۔

قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے وزارت سیفران کو مجوزہ ’’رواج ایکٹ‘‘ کو عوامی آگاہی کے لئے شائع کرنے کی سفارش کردی ہے۔ سیکرٹری نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ آئین و قانون کے منافی فاٹا میں کسی رواج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ بے گھر خاندانوں کی واپسی کے ٹائم فریم میں اپریل 2017 تک توسیع کردی گئی ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران ایڈیشنل سیکرٹری سفیران طارق حیات نے اعتراف کیا کہ اگرچہ سرکاری سطح پر کہا جارہا ہے کہ 90 فیصد بے گھر خاندان واپس جاچکے ہیں حقائق اس کے برعکس ہیں بے گھر خاندان ملک بھر میں پھیل گئے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا نواحی علاقہ بہارہ کہو منی فاٹا بن چکا ہے۔ ان لوگوں کے اپنے علاقوں میں کیسے شمار ہوسکے گا یہی قبائلی اراکین کے تحفظات ہیں۔ چیف شماریات آصف باجوہ نے کہا کہ فاٹا کیلئے مردم شماری کا الگ سے خصوصی طریقہ کار وضع نہیں کرسکتے۔ مردم شماری کے لئے ساڑھے پانچ کروڑ فارمز کی چھپائی ہورہی ہے۔ ایک لاکھ بیس ہزار شماریاتی عملے ‘ پچاس ہزار فوجی جوانوں کی تربیت مکمل کرلی گئی ہے۔

ٹائم فریم کے مطابق پندرہ مارچ سے مردم شماری شروع ہوجائے گی۔ پاکستان میں رہنے والے تمام باشندوں بشمول افغانوں‘ بہاریوں‘ بنگالیوں‘ چیچن و دیگر تمام اجنبی افراد کا بھی ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔ چیف شماریات کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کی معلومات ضرور حاصل کی جائیں گی تاہم ان کا پاکستان کی آبادی میں شمار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جو جہاں رہتا ہے وہیں اس کا شمار ہوگا کیونکہ وہ وہاں کی سہولیات سے مستفید ہورہا ہے۔

ملازمین کا بھی اسی شہر میں شمار ہوگا جہاںملازمت کررہا ہے چیف شماریات نے بھی تصدیق کی کہ اگرچہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 90فیصد آئی ڈی پیز فاٹا واپس جاچکے ہیں ایسا نہیں ہے یہ خاندان بندوبستی علاقوں میں موجود ہیں اراکین کمیٹی کے تحفظات کا اطہار کیا ہے کہ اس صورتحال کی موجودگی میں مردم شماری ہوگی تو قبائلی علاقوں کی تو آبادی کم شمار ہوگی ۔

سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ فاٹا تو خالی ہوچکا ہے کئی تحصیلیں مکمل طور پر خالی ہیں۔ چیف شماریات نے کہا کہ تمام آئی ڈی پیز کا ڈیٹا ہمیں فراہم کردیا جاتا ہے تو ہم انہیں فاٹا میں شمار کریں گے۔ نادرا کے ڈیٹا بیس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا زاہد خان کا کہنا تھا ک جب لوگ فاٹا میں نہیں ہیں کس کو شمار کریں گے آئی ڈی پیز کی واپسی بارے سرکاری اعداد و شمار زمینی حقائق کے برعکس ہیں اگر اس طریقہ کار کے تحت مردم شماری ہوئی تو فاٹا کو آپریشن راہ نجات اور اپریشن ضرب عضب سے دوگنا زیادہ نقصان ہوگا۔

علاقے خالی ہیں کمیٹی میں ان تحفظات پر فاٹا سیکرٹریٹ میں قائمہ کمیٹی اور متعلقہ اداروں کا مشترکہ اجلاس آئندہ چار سے پانچ روز میں ہوگا۔ چیئرمین نادرا کو بھی سات کروڑ نفوس کا ڈیٹا غائب ہونے کے معاملے پر آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا گیا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے شماریاتی کمشنر نے بتایا کہ پشاور کے قریب فاٹا کے پچیس متنازعہ دیہاتوں کو بندوبستی علاقوں میں شمار کیا ہے اور اس بارے ممیں صوبائی حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے یہ متنازعہ دیہات نہیں ہیں۔