پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ،ایف بی آر میں 121ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

ایف بی آر حکام ریکوری معاملے پر کمیٹی کو مطمئن کرنے میں ناکا م ، ریکوری کی تفصیلات طلب، ملزمان کیخلاف کاروائی کا حکم مختلف کمپنیوں کی طرف سے دو ارب اکتالیس کروڑ روپے کا ٹیکس کم جمع کیا گیا، نوٹس بھیجے لیکن صرف چھبیس کروڑ کی ریکوری ہوئی،پچیس کروڑ روپے مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں، عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو بنیاد بنا کرریکوری سے انکار نہیں کیا جا سکتا، 121ارب روپے میں سے ایف بی آر نے صرف بیس ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ، 76ارب روپے کی ریکوری کا جواب ایف بی آر نے دینا ہے،آڈیٹر جنرل حکومت یا عوام کا پیسہ کھا کر بندہ چلا جا ئے، کریمنل ایکٹ لاگو نہیں ہوتا ،شفقت محمود ،نوید قمر

بدھ 22 فروری 2017 16:39

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ،ایف بی آر میں 121ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 فروری2017ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں 121ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ،ایف بی آر حکام ریکوری کے معاملے پر کمیٹی کو مطمئن کرنے میں ناکا م ہو گئے،کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ریکوری کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ملوث افراد کیخلاف کاروائی کا حکم دے دیا۔

پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو سید نوید قمر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں ایف بی آر کے آڈٹ اعتراضات برائے مالی سال 2013-14کے آڈٹ اعتراضا ت کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں ممبران کمیٹی شیری رحمان، عذرا فضل، شفقت محمود، عارف علویٰ، پرویز الہی، پرویز ملک، مشاہد حسین سید، چوہدری تنویر،اعظم خان سواتی، رانا افضال، جاوید اخلاص، میاں عبدالمنان، محمود اچکزئی، عاشق گوپانگ، جنید انوار چوہدری، شیخ روحیل اصغر،ایف بی آر، متعلقہ وزارتوں اور آڈٹ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں ایف بی آر میں 121ارب روپے کی مالی باضابطگیاں سامنے آئیں۔آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ مختلف کمپنیوں کی طرف سے دو ارب اکتالیس کروڑ روپے کا ٹیکس کم جمع کیا گیا، نوٹس بھیجے لیکن صرف چھبیس کروڑ کی ریکوری ہوئی،پچیس کروڑ روپے مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں، عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو بنیاد بنا کرریکوری سے انکار نہیں کیا جا سکتا، 121ارب روپے میں سے ایف بی آر نے صرف بیس ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے اور 76ارب روپے کی ریکوری کا جواب ایف بی آر نے دینا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کل باون کمپنیوں میں پچھتر کروڑ روپے کا تنازعہ ہے۔316کیسوں میں ریکوری نہ کرنے پر آڈٹ حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایف بی آر کے فیلڈ فارمیشن دفاتر نے 42ارب روپے کی ریکوری نہیں کی۔جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ چھ ارب 42کروڑ روپے کی رقم کے کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہے جبکہ چھ ارب 28کروڑ روپے کی رقم ریکوری ہونا باقی ہے،5ارب 42کروڑآئی پی پیز کی ہے جو ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔

رکن کمیٹی محمو خان اچکزئی نے کہا کہ پانچ سال گزر گے آپ نے کسی کیخلاف ایکشن نہیں لیا ۔رکن کمیٹی سنیٹر اعظم خان سواتی نے آڈیٹر جنرل کی کاردگی پر خراج تحسین پیش کیا ۔ اعظم سواتی نے کہا کہ آڈٹ نے رواں مالی سال 81 ارب کی ریکوری کی ہے ۔اجلاس میں ود ہولڈنگ ایجنٹس سے 24ارب روپے کی ریکوری پر شفقت محمود ایف بی آر پر برہم ہوگئے، شفقت محمود نے کہا کہ ورہولڈنگ ایجٹس دو طرح کے ہیں ایک وہ جو عوام سے جمع کر کے کھا گے دوسرے وہ ہیں جن کا ایف بی آر کو پتا نہیں وہ کاروبار کر رہے ہیں یہ انتہاہی سنجیدہ معاملہ ہے اور کریمنل ایکٹ میں آتا ہے ۔

سید نوید قمر نے شفقت محمود کی حمایت کرتے ہوے حکام سے استفسار کیاکہ حکومت یا عوام کا پیسہ کھا کر بندہ چلا جا ئے، کریمنل ایکٹ لاگو نہیں ہوتا ۔پی اے سی نے معاملے پر ایف بی ار کی ٹیکنیکل ٹیم سے بریفنگ طلب کر لی۔ رکن کمیٹی شیری رحمان نے ایف بی آر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ حربے ایف بی آر کے پاس ہوتے ہیں ہم سب کو آپ سے ڈر کر رہنا چاہیے ۔ایف بی آر اربوں روپے کے آڈٹ اعتراضات پر کمیٹی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا توکمیٹی نے ایف بی آر کو آئندہ اجلاس میں تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایات کر دیں۔ سردار عاشق گوپانگ کی چیئرمین سے درخواست پر نوید قمر نے ایف بی آر حکام کو ہدایات کیں کہ آئندہ اجلاس میں ریکوری کی رپورٹ لائیں اور جسکی غلطی ہو اسکے خلاف ایکشن بھی لیں

متعلقہ عنوان :