نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہو گیا ہے ،ْسپریم کورٹ

عدالت سے کوئی تعاون نہیں کر رہا ،معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں، ججز کے ریمارکس آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں، پارٹی نہ بنیں ،ْ جسٹس شیخ عظمت

بدھ 22 فروری 2017 15:24

نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانا ما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دور ان کہا ہے کہ عدالت سے کوئی تعاون نہیں کر رہا اور معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں ،ْنیب کے جواب کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہو گیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے کیونکہ دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔

بدھ کو سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل جاری رکھے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت نے گزشتہ روز اپیل دائر کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا تھا کہ کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے ،ْقرضہ فارن کرنسی اکاؤنٹس پر لیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی سٹوری بنائی بھی ہے تو اس پر قائم رہیں ،ْہر وکیل الگ بات کر کے کنفیوژکر دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ قطری کے پاس انوسٹمنٹ کی گئی تھی اور قرض ادائیگی میں کسی فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ذکر نہیں آیا تھا لہذا اٹارنی جنرل اور تمام وکلاء عدالت پر رحم کریں۔جسٹس عظمت نے اشتر اوصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں، پارٹی نہ بنیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، اس کیس میں پارٹی نہیں ہوں۔

انھوں نے استدعا کی کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے کیونکہ دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا۔انھوں نے استفسار کیا کہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو اس پر انحصار کیوں کر رہے ہیں اور اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں جبکہ حدیبیہ کیس میں ریاست مدعی تھی۔

جس پر اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ میں وفاق کی وکالت نہیں بلکہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، میرا کام عدالت کے سامنے ریکارڈ سے حقائق لانا ہے۔اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کی مشکل کو سمجھتے ہیں تاہم عدالتی معاونت کریں۔اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ اگر عدالت چاہتی ہے تو میں معاونت جاری رکھوں گا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم نے آپ کو نوٹس جاری کیا ہے اس لیے معاونت کریں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جانتے ہیں کہ آپ مشکلات کا شکار ہیں ،ْ آپ اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں، آپ سے ویسی ہی معاونت کی توقع ہے ،ْاٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے ریکارڈ کے مطابق حقائق پیش کر رہاہوں۔اٹارنی جنرل نے دلائل کا سلسلہ دوبارہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل دائر کر سکتا ہے۔جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اپیل کا حق متعلقہ فریق کو ہوتا ہے ،ْ غیر متعلقہ شخص کیسے اپیل کر سکتا ہی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئین میں اس پر کوئی پابندی نہیں۔

سماعت کے دوران وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ ان کا وزیراعظم اہل ہے یا نہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ درخواست گزار کو بتانا ہوتا ہے کہ کس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ،ْ ان کا کہنا تھا معاملہ نوازشریف کے بطور وزیراعظم نہیں بلکہ بحیثیت رکن اسمبلی اہلیت کا ہے۔

جس پر جسٹس کھوسیہ نے کہا کہ عدالت نے 3 نومبر 2016 کو درخواستیں قابل سماعت قرار دی تھیں، عدالت عوامی مفاد کا معاملہ ہونے کا فیصلہ پہلے ہی کر چکی ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اس حوالے سے معاونت کریں کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے۔اشتر اوصاف نے بتایا کہ آئین کے تحت نا اہلی کیلئے ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جا سکتا ہے ،ْاسپیکر سے فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہی کسی اور فورم پر جا سکتا ہے۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہم متعدد مقدمات میں کہہ چکے ہیں اگر دیگر ادارے اپنا کام نہ کر رہے ہوں تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے اداروں کا وقار بیرون ملک مجروح کیا گیاجس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ادارے کام نہیں کریں گے تو ایسا تو ہوگا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے اداروں کو بہت مضبوط کیا۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم جانتے ہیں آپ ہمارے سوالوں کا جواب دیں کہ ہم ان الزامات کو لے کر کہاں جائیں انھوں نے کہا کہ کئی دنوں سے سب کے دلائل سنے صرف اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے متعلقہ فورم سے متعلق سوال کیا تھا ،ْساتھ ہی انھوں نے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 42 اے کا حوالہ دیا۔

انہوںنے کہا کہ ہر منتخب نمائندہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کا پابند ہوتا ہے ،ْاگر اثاثے چھپائے ہوں یا غلط بیانی کی گئی ہو تو سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے اور اس کے لیے شہادتیں ریکارڈ کرنا ہوتی ہیں ،ْ مقدمے میں 3 سال قید اور 5 ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ درخواست گزار وزیراعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ کریں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرے کہنے کا یہی مطلب ہے ،ْ وزیراعظم کو آئین کے تحت فوجداری مقدمہ میں استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اشتر اوصاف سے کہا کہ آپ آئین کا آرٹیکل 248 بھی پڑھ لیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر اور گورنرز کے خلاف فوجداری مقدمہ نہیں ہو سکتا اس میں وزیراعظم شامل نہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سے کوئی تعاون نہیں کر رہا اور معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔انھوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سیشن جج ٹرائل میں یہ معاملہ حل کر لے گا کون استغاثہ کرے گا اور کون شہادتیں لائے گا ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کے کل کے بیان کے بعد کیا یہ شخص کسی کا ٹریفک چالان بھی پکڑ سکتا ہی جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہو گیا ہے۔

سماعت کے دور ان جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری نے مداخلت کی اور کہا کہ عدالت نے یوسف رضا گیلانی کیس میں نہ صرف یہ کہا بلکہ ان کو گھر بھی بھیجا اگرچہ اس کیس میں 65 ملین ڈالرز واپس نہیں آئے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے تھے جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 63 ڈیکلیریشن دینے کی اجازت نہیں دیتا۔نعیم بخاری کے جواب پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ وہ تو آپ نے لے کر آنے تھے آپ گئے ہی نہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ ، سب کے دلائل سنے لیکن صرف اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے ڈیکلیریشن دیا تھا اور کیس کا فوجداری حصہ تحقیقات کیلئے متعلقہ فورم کو بھجوایا گیا، جعلی ڈگری مقدمات بھی ڈیکلیریشن کے بعد ٹرائل کے لیے بھجوائے گئے اور اصغرخان کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، فوجداری معاملے پر عدالت بغیر تحقیقات کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین نیب نے کہہ دیا کہ میں نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کرلو، مخدوم علی خان کے موکل کے پاس چیئرمین نیب کی مصدقہ انشورنس پالیسی ہے جبکہ اصغر خان کیس میں مقدمہ درج ہوا نہ کوئی تفتیش ہوئی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ چیئرمین نیب اور ایف بی آر نے جو کہا وہ ہمارے سامنے ہے، وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں ۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے افتخار چیمہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ کیس میں ملزم کو جائیداد ظاہر نہ کرنے پر نا اہل قرار دیا گیا تھا ،ْجائیداد بیشک حلال ذرائع سے بنائی ہوں ظاہر کرنا ضروری ہے۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیے اور سوال یہ بھی ہے کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہی جسٹس اعجاز افضل نے جواب دیا کہ یہ بات ہمارے ذہن میں بھی ہے کہ کس حد تک جایا جاسکتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ وزیراعظم اسمبلی کے رکن بھی ہیں ان کی نا اہلی کی استدعا سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہی جسٹس شیخ عظمت سعیدنے ریمارکس دیئے کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ ہم گھر بھیج سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ رکن اسمبلی کی نا اہلی کیلئے آئین میں طریقہ کار درج ہے ،ْایم این اے پبلک آفس ہولڈر نہیں ہوتا اس لیے کو وارنٹو کی درخواست نہیں آسکتی۔

انہوںنے کہاکہ عدالت آئین کو مد نظر رکھے ،ْ آرٹیکل 62 میں عوامی عہدے کا نہیں لکھا۔نجی ٹی وی کے مطابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل کا آغاز کیا جس میں انہوں نے کہا کہ 70 کی دہائی میں ہونے والے معاہدوں کے دستاویزات وزیراعظم نے نہیں ان کے بچوں نے پیش کیں ،ْدبئی اسٹیل مل معاہدے کے وقت حسین نواز صرف 8 سال کے تھے جبکہ دبئی اسٹیل مل کی افتتاحی تقریب کی تصاویر میں نوازشریف موجود تھے، جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم نے اپنے کسی جواب میں قطر کا ذکر کیا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں نہ قطر کا ذکر کیا اورنہ ہی کسی معاہدے کا کہا۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم پر لازم تھا کہ تقریر میں سب کچھ بتا دیتے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں ان کے بیان کی اہمیت ہونی چاہیے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر بچوں کا جواب سنا سنایا ہے تو آپ کو کیسے سچ مان لیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیراعظم اور بچوں کی کہانی ایک نہیں، ایک صحیح تو دوسرا غلط ہوگا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میرا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے فلیٹ خریدنے کے موقف کو تسلیم کیا جائے۔

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نعیم بخاری کے دلائل کے بعد شیخ رشید صاحب کو سنیں گے جس کے بعد عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا جواب الجواب کے بعد آپ نے کوئی دلائل دینے ہیں جس پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتی سوالات ہوئے تو جواب دوں گا۔ عدالت نے نعیم بخاری کو (آج) جمعرات کو11 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔