پانامہ کیس ،ریاستی ادارے کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کر لو،سپریم کورٹ

ہمارے لیے نیب انتقال کر گیا ،الزامات سچ تھے تو دفنایا کیوں گیا اگر الزامات غلط تھے تو ان پر انحصار کیوں کررہے ہیں، یہ جاننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس کا وزیراعظم اہل ہے یا نہیں،یہ بتا دیں الزامات کو لے کر ہم کہاں جائیں ،وزیراعظم کا دفاع دفن ہوگیا،کیا تقریر میں غلط بیانی کو بے ایمانی کہا جاسکتا ہے،پانامہ میں ایسے اثاثے سامنے آئے جن کا پہلے ذکر نہیں کیا گیا تھا، نیب آرڈیننس کے تحت درست وضاحت نہ کرنے والا ملزم ہوتا ہے، جسٹس عظمت سعید

بدھ 22 فروری 2017 15:01

پانامہ کیس ،ریاستی ادارے کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 فروری2017ء) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہمارے لیے نیب گذشتہ روز انتقال کر گیا ہے،الزامات سچ تھے تو دفنایا کیوں گیا اگر الزامات غلط تھے تو ان پر انحصار کیوں کررہے ہیں، یہ جاننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس کا وزیراعظم اہل ہے یا نہیں،یہ بتا دیں الزامات کو لے کر ہم کہاں جائیں،وزیراعظم کیلئے نیب انشورنس پالیسی تھی،وزیراعظم کا دفاع گذشتہ روز دفن ہوگیا،کیا تقریر میں غلط بیانی کو بے ایمانی کہا جاسکتا ہے،پانامہ میں ایسے اثاثے سامنے آئے جن کا پہلے ذکر نہیں کیا گیا تھا، نیب آرڈیننس کے تحت درست وضاحت نہ کرنے والا ملزم ہوتا ہے، ریاستی ادارے کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کر لو۔

(جاری ہے)

بدھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز اپیل دائر کرنے سے متعلق پوچھا تھا ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے۔ قرض فارن کرنسی اکائونٹس پر کیا گیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگر کوئی کہانی بنائی ہے تو اس پر قائم رہیں۔ ہر وکیل الگ بات کرکے کنفیوژ کردیتا ہے۔ بتایا گیا قرض ادائیگی کے لئے قطری نے فنڈز فراہم کئے۔ قرض ادائیگی میں کسی فارن کرنسی اکائونٹ کا ذکر نہیں۔

اٹارنی جنرل اور وکلاء براہ مہربانی عدالت پر رحم کریں۔ بطور اٹارنی جنرل معاونت کریں ۔کسی فریق کے وکیل نہ بنیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قرضہ قاضی فیملی کے اکائونٹس پر لیا گیا ۔حدیبیہ کیس کا پانامہ کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ حدیبیہ کیس میں پیسہ باہر سے پاکستان لایا گیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہمارے لیے نیب گذشتہ روز انتقال کر گیا ہے،الزامات سچ تھے تو دفنایا کیوں گیا اگر الزامات غلط تھے تو ان پر انحصار کیوں کررہے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بطور اٹارنی جنرل آپ ریاست کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا کام عدالت کے سامنے حقائق لانا ہے جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جانتے ہیں کہ آپ مشکلات کا شکار ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کی نہیں عدالت کی معاونت کررہا ہوں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں ایسی ہی معاونت کی امید ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حدیبیہ کیس میں ریاست مدعی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے ریکارڈ کے مطابق حقائق پیش کررہا ہوں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل دائر کرسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اپیل کا حق متاثرہ فریق کو ہی ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں ایسی کوئی بات نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کوئی ایک مثال بتائیں جہاں ایسی اپیل منظور کی گئی ہو۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار کو بتانا ہوتا ہے کس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ جاننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس کا وزیراعظم اہل ہے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ نواز شریف کی بطور وزیراعظم نہیں اسمبلی رکنیت سے متعلق ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے تین نومبر 2016 کو درخواستیں قابل سماعت قرار دی تھیں۔

عدالت عوامی مفاد ہونے کا فیصلہ پہلے ہی دے چکی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا عدالت کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہئے۔ یہ بھی سوال ہے کہ عدالت کس حد تک جاسکتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہمارے ذہن میں بھی ہے یہ بات کہ کس حد تک جایا جاسکتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم اسمبلی کے رکن بھی ہیں نااہلی سے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایم این اے پبلک آفس ہولڈر نہیں ہوتا ۔اس لئے ایم این اے کے خلاف کووارنٹو کی درخواست نہیں آسکتی۔ رکن اسمبلی کی نااہلی کے لئے آئین میں طریقہ کار درج ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ گیلانی کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ ہم گھر بھیج سکتے ہیں۔ نعیم بخاری نے لقمہ دیا کہ یہ الگ بات ہے کہ 65ملین ڈالرز واپس نہیں آئے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پیسے تو آپ نے واپس لانے تھے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نعیم بخاری کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نااہلی کا فیصلہ دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 پر نااہلی کے لئے پہلے کسی عدالتی فورم کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ گیلانی کیس میں عدالت نے پہلے فیصلہ دیا پھر نااہلی ہوئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم آپ کی بات پر اتفاق کرلیں ہوسکتا ہے نہ کریں۔ ایم این اے عوامی عہدہ نہیں رکھتا تو پھر کیا ہوتا ہے ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رکن اسمبلی منتخب نمائندہ ہوتا ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نمائندے کا آفس بھی پبلک سروس میں آتا ہے۔ کیا رکن اسمبلی عوامی عہدے پر نہیں ہوتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ منتخب نمائندوں کے خلاف آرٹیکل 199 کی رٹ دائر نہیں ہوسکتی۔ رکن کی نااہلی کے لئے سپیکر یا الیکشن کمیشن ہی فورمز ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ڈیکلریشن کون سی عدالت دے گی ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے پر عدالت ڈیکلریشن دے سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ محمود نقوی کیس میں فیصلے غیر متنازعہ حقائق پر دیئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ عدالت کے سامنے کیا مواد رکھا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوٹو کا پییز اور انٹرنیٹ مواد پر فیصلہ مانگا جارہا ہے۔ عدالت نے مواد کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ بتائیں پھر ہم کیا کریں الزامات غیر سنجیدہ نہیں۔ یہ بتا دیں الزامات کو لے کر ہم کہاں جائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ اداروں کو مضبوط کیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کچھ الزامات کو تسلیم بھی کیا گیا قوم سے ریکارڈ فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا۔ جن باتوں کو تسلیم کیا گیا ان کا کیا کریں اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے متعلقہ فورم سے متعلق سوال کیا تھا ۔

منتخب نمائندہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے۔ اثاثے چھپانے یا غلط بیانی پر سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے۔ مقدمے کی صورت میں تین سال قید ‘ پانچ ہزار جرمانہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں درخواست گزار وزیراعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ کرے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی میرے کہنے کا یہی مقصد ہے۔ وزیراعظم کو آئین کے تحت فوجداری مقدمے میں استثنیٰ نہیں ہوتا۔

کسی نے حدیبیہ کیس میں اپیل کی تو متاثرہ فریق کا نکتہ نہیں اٹھائوں گا۔ اپیل کے حوالے سے بات بطور اٹارنی جنرل کررہا ہوں۔ نااہلی تو پانامہ کیس کا ایک پہلو ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا نیب نے گذشتہ روز تحقیقات کا کہا تھا ،وزیراعظم کیلئے نیب انشورنس پالیسی تھی،وزیراعظم کا وہ دفاع گذشتہ روز دفن ہوگیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے ڈیکلریشن دیا تھا۔

فوجداری حصہ تحقیقات کے لئے متعلقہ فورم کو بھجوایا گیا۔ جعلی ڈگری مقدمات میں بھی کیسز ٹرائل کے لئے بھجوائے گئے۔ عدالت نے قرار دیا الیکشن میں دھاندلی ہوئی ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم جا کر کس سے کریں‘ فریاد وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے ولا نکلا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ چیئرمین نیب نے انشورنس پالیسی دینے کی کوشش کی، پانامہ میں ایسے معاملات آئے جن کی تفصیلات درکار تھیں۔

کیا تقریر میں غلط بیانی کو بے ایمانی کہا جاسکتا ہے۔ پانامہ میں ایسے اثاثے سامنے آئے جن کا پہلے ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ نیبآرڈیننس کے تحت درست وضاحت نہ کرنے والا ملزم ہوتا ہے۔ ریاستی ادارے کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کر لو۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اداروں کو ٹائم فریم دے کر کام کروا سکتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ سے تمام مسائل کے حل کی تجاویز مانگ رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں بھی زیر التوا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جو بات سپریم کورٹ کو نہیں بتائی جارہی کسی اور کو کیا بتائی جائے گی ۔ہمیں زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر سوچنا ہوگا۔ عدالت تمام قوانین سے آگاہ ہے ۔مسئلہ صرف عمل درآمد کا ہے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل مکمل کرلئے۔ وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی نے کہا کہ گزشتہ روز این ٹی این کی منسوخی کا سوال اٹھایا گیا ۔

منسوخی کا نوٹیفکیشن کو 9روز بعد واپس لے لیا گیا تھا۔ متعلقہ شخص کو سنے بغیر این ٹی این منسوخ نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے جواب الجواب میں کہا کہ عدالت میں بعض غیر متنازعہ شواہد پیش کئے گئے تھے۔ مریم 28اکتوبر 1973 ‘ حسین یکم مئی 1972 کو پیدا ہوئے ‘ حسن نواز 21جنوری 1976 کو پیدا ہوئے ‘ 12 جون 1974 کو دبئی ملز سے متعلق معاہدہ کیا گیا حسین نواز اس وقت دو سال کے تھے۔ حسین نے 1974 اور 1978 کی دستاویزات جمع کرائیں۔ عدالت نے نعیم بخاری کو جواب الجواب کل جمعرات گیارہ بجے تک مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔