نیب اور ایف بی آر نے ماضی میں قانونی نہیں سیاسی فیصلے کئے ،احتساب کے ادارے کسی طاقتور کے سامنے نظر نہیں اٹھاتے اور غریبوں کے احتساب پر کمر بستہ نظرا ٓتے ہیں ،یہ ادارے غریبوں کے احتساب کیلئے بنے ہیں امیروں کیلئے نہیں ۔سرکاری ادارے عوام کی بجائے دربار کی خدمت کرتے ہیں

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو

منگل 21 فروری 2017 22:39

نیب اور ایف بی آر نے ماضی میں قانونی نہیں سیاسی فیصلے کئے ،احتساب کے ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 فروری2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کہا ہے کہ نیب اور ایف بی آر نے ماضی میں قانونی نہیں سیاسی فیصلے کئے ،احتساب کے ادارے کسی طاقتور کے سامنے نظر نہیں اٹھاتے اور غریبوں کے احتساب پر کمر بستہ نظرا ٓتے ہیں ،یہ ادارے غریبوں کے احتساب کیلئے بنے ہیں امیروں کیلئے نہیں ۔سرکاری ادارے عوام کی بجائے دربار کی خدمت کرتے ہیں ،نیب نے پانامہ کے حوالے سے ابھی تک معلومات حاصل نہیں کیں،نیب کے چیئرمین کی تقرری وزیراعظم کرتا ہے وہ اپنے محسن کے خلاف کیسے کاروائی کریگا۔

عدالت کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ یہ ادارے کرپشن میں اضافہ کا ذریعہ اور کرپٹ لوگوں کے سہولت کار ہیں یا نہیں ،احتساب کے تمام ادارے اپنی مدت پوری کرتے ہیں فرائض نہیں ۔

(جاری ہے)

اصولی طور پر ہر وہ دولت ناجائز ہے جس کا ذریعہ معلوم نہ ہو۔کرپشن کے خلاف نیب کا ایکشن ابھی ان ایکشن ہے ۔جماعت اسلامی سب کا احتساب چاہتی ہے وہ داڑھی والا ہو یا بغیر داڑھی کے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پانامہ کیس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ بھی موجود تھے ۔سراج الحق نے کہا کہ نیب اور ایف بی آر کو آج سپریم کورٹ نے بلایا تھا۔ آج ان کے سپریم کورٹ میں سوال و جواب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے 100 فیصد سیاسی فیصلے کئے ہیں۔

ان اداروں نے صرف غریبوں کا احتساب کیا ہے۔ کبھی بڑوں اور حکمران طبقہ کا احتساب نہیں کیا۔ نیب اور ایف بی آر نے پانامہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔ قوم ان کو 100 فیصد مراعات دے رہی ہے مگر یہ اپنے فرائض پورے نہیں کر رہے۔ نیب اور ایف بی آر عوام کے حقوق کی حفاظت نہیں کر رہی ہے۔ پانامہ لیکس آنے کے بعد اتنا عرصہ گزر گیا ہے مگر یہ ابھی تک معلومات جمع کر رہے ہیں۔

عدالت میں نیب اور ایف بی آر نے اقرار کیا ہے کہ وہ ان ایکشن ہیں، ایکشن میں نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آٹھ، نو ماہ بعد بھی نیب کا ادارہ ایکشن کی بجائے ان ایکشن میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اصل فیصلے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے قومی اسمبلی میں جو بل پیش کیا تھا۔ اس میں ہمارا یہی موقف تھا کہ نئے چیئرمین کی تقرری جب تک وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کرتا ہے، اس وقت تک یہ ادارہ انصاف اس لئے نہیں کرے گا کہ کوئی بھی اپنی اس اتھارٹی کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتا جو اس کی تقرری کا اختیار رکھتا ہے۔

نیب کے چیئرمین کی تقرری کے لئے مناسب ادارہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس، ہائیکورٹ اسلام آباد سمیت چاروں صوبائی ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کے مشورہ سے ہو تاکہ یہ ادارہ 100 فیصد غیرجانبدار ہو، 100 فیصد ایک ثالثی ادارہ ہو اور یہ کسی کے احسان کا نہ ہو، چیئرمین سمجھتا ہے کہ جس نے مجھے مقرر کیا ہے، میں کیسے اپنے محسن کے خلاف انکوائری کروں اور فیصلے کروں اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت میں طویل عرصہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام ادارے فیصلے دیتے وقت حکومت کی آنکھوں کو دیکھتے ہیں کہ حکومت کا موڈ کیا ہے اور یہ عوام کے حقوق کی بجائے حکومت اور سرکار کے حقوق کے لئے انہوں نے ہمیشہ کام کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لئے ہماری قوم اور عدالتوں کو بھی جائزہ لینا ہے کہ جس طرح مسلح دہشت گرد مجرم ہے اور ان کے سہولت کار بھی مجرم ہیں تو جو لوگ کرپشن میں ملوث ہیں وہ مجرم ہیں لیکن جو لوگ اور جو ادارے اور جو سرکاری افسر ان کے سہولت کار ہیں،جنہوں نے ان کے جرائم اور گناہوں پر پردہ ڈالا ہے چشم پوشی کی ہے کیا یہ ادارے اسی طرح ان جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ تمام بڑے بڑے آفیسرز جو بڑی بڑی مراعات اور بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں۔ یہ فرائض پورا کرنے کی بجائے اپنی مدت پوری کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن بڑھ رہی ہے، ختم نہیں ہوئی میں سمجھتا ہوں ایک آسان سوال ہے اور ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ ہر وہ دولت ناجائز ہے جن کے کمانے کا ذریعہ کمانے والا نہ بتا سکے۔

وہ حکمرانوں کے پاس ہو، وہ افراد کے پاس ہو، وہ کسی بیوروکریٹ کے پاس ہو اگر ایک سرکاری آفیسر کی تنخواہ ایک لاکھ ہے اور ان کے بچے جہاں پر پڑھ رہے ہیں ان کی فیسیں پانچ لاکھ سے زیادہ ہیں۔ ان کے گھر کا کرایہ لاکھوں میں ہے۔ ان کا لائف سٹائل بادشاہوں کی طرح ہے۔ کیا یہ ثبوت نہیں ہے کہ وہ ایک سہولت کار ہے یا چوری کرتا ہے یا چوری میں ملوث ہے۔

اسی طرح جو سیاستدان جو بیورو کریٹ جسے سرکاری یا عوامی منصب ملا ہو اور انہوں نے دولت کے ڈھیر لگائے ہوں اور وہ یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ ان کے ذرائع کیا ہیں۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میں ایک بار پھر کہوں گا کہ ایک تاریخی لمحہ اللہ تعالیٰ نے ہماری عدالتوں کو بھی دیا ہے اور ہماری قوم کو بھی دیا ہے میں پوری طرح اطمینان دلاتا ہوں کہ پوری قوم احتساب کے لئے سپریم کورٹ کی پشت پر کھڑی ہے اور ثابت بھی کیا ہے کہ جب یہ قوم کسی جج کی پشت پر کھڑی ہو تو بڑے سے بڑا آمر اور ڈکٹیٹر بھی اس کے سامنے کچھ نہیں ہوتا، ماضی میں بھی کی پشت پر کھڑی ہے اور ثابت بھی کیا ہے کہ جب یہ قوم کسی جج کی پشت پر کھڑی ہو تو بڑے سے بڑا آمر اور ڈکٹیٹر بھی اس کے سامنے کچھ نہیں ہوتا، ماضی میں بھی یہ ثابت ہوا ہے میں امید رکھتا ہوں کہ پانامہ سکینڈل کا فیصلہ عوام کے حق میں آئے گا اور کرپشن کے خلاف ہو گا اور جب میرٹ پر فیصلے ہوں گے، پاکستان کرپشن فری ملک بن جائے گا۔

ایک سوال پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگر کسی ڈاکٹر نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے سزا دینی چاہئے لیکن یہ قطعاً غلط بات ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر کا مسئلہ پیش ہو، کوئی بھی مسئلہ ہو اور اس بنیاد پر وہ ہڑتال کرتا ہے اور پوری قوم اس وجہ سے مصیبت میں ہوتی ہے لیکن میں یاد دلاتا چاہتا ہوں کہ جس نظام اور معاشرے میں مچھر پکڑے جاتے ہیں اور ہاتھی نگل لیے جاتے ہیں، اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے اس لئے اگر ہم نے ہاتھیوں پر ہاتھ ڈالا تو مچھر خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔

دریں اثنا ء امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے ڈی پی او چار سدہ سہیل شاہین کو فون کرکے پولیس کی طرف سے دہشت گردی کے واقعہ کو ناکام بنانے پر انہیں شاباش دیتے ہوئے کہا کہ چار سدہ پولیس کی جرأت اور قربانی پر قوم کو فخر ہے ،پولیس والوں نے عوام کو بچانے کیلئے اپنی زندگیوں کو دائو پر لگا کر فرض کی ادائیگی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔سراج الحق نے شہداء کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کیلئے جلد صحت یابی کی دعا کی اور پولیس کی فرض شناسی اوردہشت گردوں کے خلاف بروقت کاروائی کو زبر دست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔