پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس

بین الصوبائی رابطہ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، قومی غذائی تحفظ اور دفاعی پیداوار کی وزارتوں کے 2012-13، 2013-14ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا

منگل 21 فروری 2017 16:18

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 فروری2017ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہائوس میں پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر ہدایٹ الله، سینیٹر چوہدری تنویر خان، ڈاکٹر درشن، رانا تنویر حسین، ڈاکٹر عذرا فضل، سردار عاشق حسین گوپانگ، شاہدہ اختر علی، صاحبزادہ نذیر سلطان اور پرویز ملک کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

اجلاس میں وزارت بین الصوبائی رابطہ، وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، وزارت قومی غذائی تحفظ اور وزارت دفاعی پیداوار کے 2012-13، 2013-14ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

وزارت بین الصوبائی رابطہ کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کشمیری طلباء کے وظائف میں کٹوتی کیوں کی گئی ہے۔

پرویز ملک سمیت پوری کمیٹی نے وظائف کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جس پر پی اے سی کے چیئرمین نے وزارت بین الصوبائی رابطہ کو ہدایت کی کہ بلوچستان، فاٹا اور کشمیری طلباء کے وظائف کی تمام تفصیلات پی اے سی کو پیش کی جائیں۔ سیکریٹری بین الصوبائی رابطہ نے کہا کہ 2012ء میں کٹوتی کی گئی تھی، اب یہ وظائف باقاعدگی سے دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 800 طلباء کو وظائف دیئے جا رہے ہیں۔

بین الصوبائی رابطہ کی وزارت کے ایک آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران چوہدری تنویر خان نے کہا کہ ایک کیس کی انکوائری اگر 10 دن میں مکمل کرنے کا حکم ہے تو اس میں دو سال کی تاخیر کیوں کی گئی، ہمارا کام آئین اور قانون پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔ سردار عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ نیت کا اچھا ہونا الگ بات ہے مگر قانون اور قواعد سب پر فوقیت رکھتے ہیں۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ حکومت کے خزانے میں اکائونٹ کھولا جائے تو وہ رقم سرکار کے پاس ہوتی ہے مگر پرائیویٹ بینک میں رقم جمع ہو تو وہ ان کی ذاتی تحویل میں ہوتا ہے جس نے بھی یہ اکائونٹ نجی بینک میں کھولا ہے اس پر ذمہ داری عائد کی جائے۔ انٹر بورڈ کمیٹی آف چیئرمین (آئی بی سی سی) کی جانب سے 27 کروڑ 20 لاکھ سے زائد کی رقم سرکاری خزانے میں رکھنے کی بجائے نجی بینکوں میں رکھنے کے معاملے پر پی اے سی کے ارکان نے کہا کہ جزاء اور سزا کا نظام ہونا چاہئے۔

اس معاملے میں ذمہ داری انٹرنل آڈٹ پر عائد ہوتی ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ اس معاملے کی 20 دنوں میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کی جائے اور فوری طور پر رقم نجی بینکوں سے نکال کر سرکاری خزانے کے اکائونٹ میں منتقل کی جائے۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ وزارتوں میں سی ایف اوز کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔ جن اداروں میں یہ موثر انداز میں کام نہیں کر رہے، وہاں آڈٹ کو بہتری کے لئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

انہوں نے ہدایت کی کہ پی اے سی جس معاملے پر تحقیقات کے لئے جتنا وقت مقرر کرے، اس پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ پی اے سی سیکریٹریٹ کو اس کا فالو اپ کرنا ہوگا۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے 11 کروڑ 20 لاکھ کے خلاف قواعد مرمت وغیرہ کے مختلف منصوبوں کے حوالے سے پی اے سی کے ارکان نے کہا کہ ایک کام غلط ہوا ہے اس کے ذمہ داران کا تعین ہونا چاہئے۔

آڈٹ حکام نے کہا کہ قواعد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پاکستان سپورٹس بورڈ کے پاس آرڈیننس کے تحت اس قسم کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اعظم سواتی نے کہا کہ سزا اور جزاء کا عمل ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ پی اے سی نے آئی پی سی کو ہدایت کی کہ پاکستان سپورٹس بورڈ اس حوالے سے تین ماہ میں قواعد بنا کر منظور کرائیں۔ پی اے سی کے ارکان نے اصرار کیا کہ اس معاملے پر تحقیقات ہونی چاہئیں مگر اس کے باوجود پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے آڈٹ اعتراض نمٹا دیا۔

وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران سینیٹر چوہدری تنویر خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں اصول کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی ادارہ ایک روپے کی بے قاعدگی کرے یا ایک ارب روپے کی اس کو جوابدہ ہونا چاہئے۔ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران اعظم سواتی نے کہا کہ بطور وزیر انہوں نے 98 کروڑ کی کرپشن پکڑی تھی۔

وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس وقت ہماری مدد کی اور ہم نے بینکوں میں جا کر اکائونٹس پکڑے مگر کرپشن میں ملوث ڈاکٹر ریاض الدین کو اب ایک اہم ذمہ داری دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس 98 کروڑ میں سے 55 کروڑ روپے ریکور کرلئے گئے باقی رقم کا کیا ہوگا۔ پی اے سی نے اس معاملے پر ایک ہفتہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ ایک آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ اس وقت 5 ہزار ارب روپے کی ترقیاتی سکیمیں التواء کا شکار ہیں جبکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت صرف 750 ارب کی سکیمیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیو اسلام آباد ایئر پورٹ کی کل لاگت 37 ارب تھی مگر یہ 92 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ مگر اس وقت تک وہاں پر پانی نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :