اگر کوئی ادارہ کام کرتا تو کیس عدالت میں نہ آتا ‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

منگل 21 فروری 2017 14:57

اگر کوئی ادارہ کام کرتا تو کیس عدالت میں نہ آتا ‘جسٹس آصف سعید کھوسہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 فروری2017ء) پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اگر کوئی ادارہ کام کرتا تو کیس عدالت میں نہ آتا ‘ آف شور کمپنیز سے متعلق ایف بی آر کا کردار جاننا چاہتے ہیں یہ تو طے شدہ ہے آف شور کمپنی بنانا کوئی غلط کام نہیں‘ایف بی آر بتائے وزارت خارجہ سے کب رابطہ کیا گیا ‘ چھ ماہ کیوں لگ گئے ‘وزارت خارجہ سے رابطے میں ایف بی آر اور وزارت خارجہ کے دفاتر میں 200گز کا فاصلہ ہے 6ماہ میں 200گز کا فاصلہ طے کرنے پر آپ کو مبارک ہو‘چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پانامہ ٹیکس ہیون ہے‘ پانامہ کے ساتھ ٹیکس معلومات کا کوئی معاہدہ نہیں‘ وزارت خارجہ کے ذریعے رابطوں کی کوشش کی‘ کوشش کے باوجود پانامہ سے کوئی معلومات نہیں ملیں‘ فاضل بنچ نے چیئرمین نیب سے استفسار کیا کہ کیاپانامہ کے فریقین کو نوٹس جاری کئے ہیں ‘کمپنی مالکان تک کیسے پہنچے اور رابطہ کیسے ہوا ‘جو ملک میں رہائش پذیر نہیں کیا ان سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتی ‘کیا مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا ‘کیا حسین نواز نے صرف بیرون ملک ہونے کا دفاع کیا ‘ حسین نواز کے جواب کے بعد کیا آپ نے فائل بند کردی ‘کیا آپ حسین نواز کے این ٹی این کی تصدیق کرتے ہیں ‘2002 کے بعد پرانے این ٹی این نمبرز منسوخ ہوگئے تھے کیا حسین نواز نے نیا این ٹی این بنوایا ‘عدالت کو بتایا جائے کہ جواب موصول ہونے کے بعد ایف بی آر نے کیا اقدامات کئی ۔

(جاری ہے)

چیئرمین ایف بی آر نے معزز عدالت کو بتایا کہ 444 میں سے 347 تک رسائی ہوئی اور نوٹس بھجوائے 39کمپنی مالکان پاکستان میں رہائش پذیر نہیں‘‘حسین‘ حسن اور مریم کے جوابات موصول ہوئے مریم نواز نے آف شور کمپنیز کی تردید کی ہے‘ حسن اور حسین نواز نے کہا کہ وہ ملک میں رہائش پذیر نہیں‘مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا کچھ نہیں کہا‘وزیراعظم کے بچوں کا جواب 21نومبر 2016 کو موصول ہوا‘ حسین نواز نے کہا کہ وہ 2000 سے بیرون ملک مقیم ہیں‘حسین نواز کا این ٹی این نمبر درست ہے۔

منگل کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ ‘ جسٹس گلزار احمد ‘ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل 5 رکنی بنچ نے پانامہ کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیز سے متعلق ایف بی آر کا کردار جاننا چاہتے ہیں یہ تو طے شدہ ہے آف شور کمپنی بنانا کوئی غلط کام نہیں۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پانامہ ٹیکس ہیون ہے۔ پانامہ کے ساتھ ٹیکس معلومات کا کوئی معاہدہ نہیں۔ وزارت خارجہ کے ذریعے رابطوں کی کوشش کی۔ کوشش کے باوجود پانامہ سے کوئی معلومات نہیں ملیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ وزارت خارجہ سے کب رابطہ کیا گیا ‘ چھ ماہ کیوں لگ گئے وزارت خارجہ سے رابطے میں ایف بی آر اور وزارت خارجہ کے دفاتر میں دو سو گز کا فاصلہ ہے چھ ماہ میں دو سو گز کا فاصلہ طے کرنے پر آپ کو مبارک ہو۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ صرف ڈائریکٹر اور کمپنیوں کے مالک کا پتہ ہونا کافی نہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کمپنی مالکان تک کیسے پہنچے اور رابطہ کیسے ہوا چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ 444 میں سے 347 تک رسائی ہوئی اور نوٹس بھجوائے 39کمپنی مالکان پاکستان میں رہائش پذیر نہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا پانامہ کے فریقین کو نوٹس جاری ہوئے چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ جواب میں کہا گیا ملک میں رہائش پذیر نہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جو ملک میں رہائش پذیر نہیں کیا ان سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتی چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حسین‘ حسن اور مریم کے جوابات موصول ہوئے مریم نواز نے آف شور کمپنیز کی تردید کی ہے۔ حسن اور حسین نواز نے کہا کہ وہ ملک میں رہائش پذیر نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا کچھ نہیں کہا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شریف خاندان کے بچوں کے جوابات کب آئی چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ وزیراعظم کے بچوں کا جواب 21نومبر 2016 کو موصول ہوا۔ حسین نواز نے کہا کہ وہ 2000 سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا حسین نواز نے صرف بیرون ملک ہونے کا دفاع کیا۔ حسین نواز کے جواب کے بعد کیا آپ نے فائل بند کردی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ حسین نواز کے این ٹی این کی تصدیق کرتے ہیں چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حسین نواز کا این ٹی این نمبر درست ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2002 کے بعد پرانے این ٹی این نمبرز منسوخ ہوگئے تھے کیا حسین نواز نے نیا این ٹی این بنوایا چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ریکارڈ چیک کرکے بتا سکتا ہوں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جواب موصول ہونے کے بعد ایف بی آر نے کیا اقدامات کئی جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ تمام باتیں اپنے ریکارڈ سے ثابت کریں۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ تمام معلومات کی تصدیق کررہے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ لگتا ہے اس کو تصدیق کے لئے تیس سال درکار ہیں گھنٹوں کے کام میں ایک سال لگا دیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایف بی آر جو کررہا ہے ہمارے علم میں ہے کون کب سے بیرون ملک ہے گھنٹے میں پتہ لگ سکتا ہے۔ کس ادارے کو کب لکھا‘ ٹریول ہسٹری کے لئے ریکارڈ دکھائیں۔ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو دکھانے کے لئے ریکارڈ موجود نہیں بیرون ملک مقیم 39آف شور کمپنیز مالکان کی معلومات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے لئے بینکوں کا استعمال ہوا کیا ایف بی آر نے معاملے کی چھان بین کی ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون میں منی لانڈرنگ سے متعلق شق نہیں منی لانڈرنگ کے لئے الگ ادارے موجود ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے ایف بی آر نے منی لانڈرنگ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ پانامہ تحقیقات کا ریکارڈ پبلک نہیں کرنا چاہتے۔

ریکارڈ پبلک کرنے سے تحقیقات متاثر ہوسکتی ہیں۔ عدالت کو ریکارڈ پیش کرسکتا ہوں وزیراعظم کے بچوں کے حوالے سے فائل بند نہیں ہوئی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ چار ستمبر کو یہی بات ترجمان ایف بی آر کے نام سے اخبارات میں چھپی۔ آج بھی آپ وہاں کھڑے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو تحقیقات بڑھانے کے لئے عدالتی مداخلت کی ضرورت کوئی کام کرنا چاہتا تو کیس عدالت میں نہ آتا۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ جہاں کارروائی کرنا ہو وہاں فوری کردی جاتی ہے۔ چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کہا کہ قومی احتساب بیورو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا نیب کا یہ موقف ہے معاملہ اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ اگر کوئی ریگولیٹر رابطہ کرے تو کارروائی کی جاتی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ مشکوک ٹرانزیکشن پر بینک کارروائی کرتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کا دائرہ اختیار ہی نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ والد کہتا ہے بچوں سے پوچھیں‘ بچے کہتے ہیں دادا سے جائیداد ملی‘ نیب کہتا ہے ریگولیٹر کی طرف سے رجوع نہیں کیا گیا‘ سمجھ نہیں آرہا ہوکیا رہا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کون کرے گا ادارے کام کرتے تو مقدمہ عدالت میں نہ آتا۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو کوئی ریگولیٹر نہیں کرتے نیب قانون کے مطابق کام کر رہا ہے ۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ ہمارا کام فوجداری نوعیت کا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین نیب آج بھی کہہ سکتے ہیں یہ میرا کام ہے چیئرمین نیب نے کہا کہ پانامہ کیس پر ابتدائی کام شروع کردیا معاملے پر ایکشن لیں گے یقین دلاتے ہوئے قانون کے مطابق کام ہوگا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ حدیبیہ پیپر مل کیس میں اپیل دائر کرنا چاہتے ہیں چیئرمین نیب نے کہا کہ میں اپیل دائر نہ کرنے کے موقف پر قائم ہوں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تین سیاسی رہنمائوں نے عدالت میں درخواستیں دائر کیں تینوں رہنما وزیراعظم کی نااہلی کی استدعا کررہے ہیں۔ حنیف عباسی کی درخواست بھی اسی نوعیت کی ہے۔

حنیف عباسی کی درخواست کو پانامہ کیس سے منسلک نہیں کیا گیا۔ ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلیمنٹ پر ہوگا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ تحقیقات کرنا عدالت کا کام نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ واضح کریں عدالت نے کہاں شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بھی د یکھنا ہوگا کہ سب باتیں اب کیوں کی جارہی ہیں۔

عدالت نے اپیل دائر کرنے کا کہا تو ہر کیس میں اپیل دائر کرنا ہوگی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا عدالت کو مداخلت کرنی چاہئے یا 1.2 ارب کو جانے دیا جائے۔ الزام درست ہے یا غلط یہ نہیں کہہ رہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس سوال کا جواب میرے لئے آسان نہیں معاملہ آئین کے مطابق اپیل دائر کرنے کا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ درست ہے عدالتی فیصلے کا اطلاق ہر شخص پر ہوگا اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو شکایت کنندہ کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔

عدالت کو حقائق سے آگاہ کرنے اور شواہد دینا شکایت کنندہ کا کام ہے۔ درخواست گزار کا کام ہے بتائے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا شکایت کنندہ کا مقصد کیا ہے سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو (آج) بدھ کو گیارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کل بدھ کو وقفے کے بعد نعیم بخاری کا جواب الجواب سنیں گے۔ پانامہ کیس تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے انشاء الله جمعرات کو سماعت مکمل ہوجائے گی۔ بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت کل بدھ تک ملتوی کردی۔