پاکستانی زبانوں کے فروغ کیلئے لینگویج کمیشن آف پاکستان کا قیام ناگزیر ہے، ڈاکٹر قاسم بکھیو

منگل 21 فروری 2017 21:33

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 فروری2017ء) چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر قاسم بگھیو نے کہا ہے کہ پاکستانی زبانوں کے فروغ کیلئے لینگویج کمیشن آف پاکستان کا قیام ناگزیر ہے۔ انہوں نے یہ بات مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت منعقدہ 2 روزہ سمپوزیم کے دوسرے دن کے دوسرے سیشن میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کو کمیشن میں شامل کرنا چاہئے، کمیشن ان زبانوں کے معاملات کو ہر پہلو سے دیکھے، اس کمیشن کے ممبران کی تقرری 3 سال کیلئے ہونی چاہئے اور اس کمیشن میں ماہرین لسانیات کے علاوہ سینٹ، صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران شامل رہیں گے۔

یہ کمیشن تین ماہ کے بعد ہر صوبے اور مختلف علاقوں میں زبانوں کے معاملات کا جائزہ لے گا، کمیشن کا یہ بھی کام ہو گا کہ ان کے علاوہ اور زبانوں کے فروغ کیلئے کیا کچھ کرنا چاہئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آج آپ سب ماہر لسانیات کی پاکستانی زبانوں کے حوالے سے تجاویز کو متفقہ قرارداد کی صورت میں حکومت کے سامنے رکھیں گے۔ سلیم راز نے کہا کہ جو زبان معیشت سے جڑی ہوئی ہوگی وہی زبان پروان چڑھے گی، لہٰذا زبان کے فروغ کیلئے روزگار ضروری ہے۔

غازی علم الدین نے کہا کہ تمام پاکستانی زبانوں کے فروغ کیلئے اعلیٰ ادب کی تخلیق ضروری ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے کہا کہ مادری زبانوں کے فروغ کیلئے مردم شماری میں لسانی سروے کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ منظور ویسریو نے کہا کہ مادری زبانوں کی ترویج کیلئے ہر صوبے میں ایسے ادارے بنانے چاہئیں جو اپنے ماہر لسانیات ان زبانوں پر کام کریں، زبانوں کے بارے میں سروے کرنے کی ضرورت ہے۔

پناہ بلوچ نے کہا کہ پاکستانی زبانوں کی بہتری کیلئے سائنسی خطوط پر ان زبا ن کی اصطلاحوں کو متعارف کرنے کی ضرورت ہے۔ ارشد محمود ناشاد نے کہا کہ پاکستانی زبانوں کے فروغ میں اردو زبان کا بڑا کردار ہے لہٰذا اردو زبان کی حیثیت کو بحال رکھنا چاہئے۔ مادری زبانوں کو جدید ٹیکنالوجی اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنا چاہئے۔ فخر الدین اخوندادہ نے کہا کہ تمام پاکستانی زبانوں کو اردو ایلفا بیٹ کے سسٹم میں لانا چاہئے جس کیلئے مختلف انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے چاہئے۔

م۔ ر شفق نے کہا کہ بچوں کو مادری زبانوں میں اپنی صلاحیت کے اظہار کا موقع دینا چاہئے، اشتہارات اور رسائل پاکستانی زبانوں میں دیئے جانے چاہئیں۔ مسرت کلانچوی نے کہاکہ مادری زبانوں کے فروغ میں گھر اولین مدرسہ ہے، ماں کا کردار ہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مادری زبان سکھائے۔ سیما سحر نے کہا کہ زبانوں کے فروغ کے لیے فریم ورک، انجنیئرنگ سوفٹ ویئر جیسی سہولیات ہونی چاہئے۔

محمد علی درانی نے کہا کہ تمام زبانوں میں لکھنے والوں کو پہلے اپنی زبان کے ساتھ انصاف کرکے اپنی زبان لکھنی چاہئے۔ ہزارگی زبان ایک الگ زبا ن ہے، اسے بھی دیگر زبانوں کی طرح قومی دھارے میں لانا چاہئے۔ واحد بزادار نے کہاکہ مادری زبانوں کے لیے اتھارٹی اور پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ ا ن کو پرائمری سطح پر رائج کرنا چاہیے۔ اکبر حسین اکبر نے کہا کہ انٹرنیٹ کے دور میں ہم نے اقتصادی اور مذہبی یلغار سے اپنی زبان کو بچانا ہے ، اس کے حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

الیاس گھمن نے کہا کہ ہمیں زبانوں کو بچانے کیلئے بیالوجی، کیمسٹری اور سائنس کے مضامین اپنی زبان میں شائع کرنے چاہئے نورالامین یوسفزئی نے کہا کہ صوبائی لینگویج اتھارٹی کے ذریعے ہم زبانوں کا تحفظ اور فرو غ کر سکتے ہیں۔ حسام حر نے کہا کہ مادری زبانوں کے فروغ کیلئے ماہر لسانیات کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ محمد حسن حسرت نے کہا کہ گلگت بلتستان اور دیگر زبانوں کو اضافی مضمون کے طور پر سکھانا چاہیے۔ وسیمہ شہزاد نے کہا کہ ایئر یونیورسٹی میں مادری زبانوں کے حوالے سے سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔اس سلسلے میں دستاویز بنائی ہے۔

متعلقہ عنوان :