پاکستان سمیت دنیابھرمیں 21فروری کومادری زبانوں کا عالمی دن منایاگیا

اس دن کے منانے کا مقصد مادری زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا ہے دنیا میں بولی جانے و الی زبانوں کی تعداد 6912ہے۔ دنیا میں بولی جانے و الی 33 فیصد زبانیں ایشیا اور 30 فیصد افریقا میں بولی جاتی ہیں، یونیسکو انگریزی سب سے زیادہ 112ممالک میں بولی جاتی ہے اس کے بعد 60ممالک میں فرنچ، 57میں عربی، 44میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44ممالک میں بولی جاتی ہے جبکہ اردو 23ہندی 20اور پنجابی 8ممالک میں بولی جاتی ہے، رپورٹ

منگل 21 فروری 2017 12:31

پاکستان سمیت دنیابھرمیں 21فروری کومادری زبانوں کا عالمی دن منایاگیا
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 فروری2017ء) پاکستان سمیت دنیابھرمیں 21فروری کومادری زبانوں کا عالمی دن منایاگیا۔اس دن کے منانے کا مقصد مادری زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔یونیسکو کے مطابق دنیا میں بولی جانے و الی زبانوں کی تعداد 6912ہے۔ دنیا میں بولی جانے و الی 33 فیصد زبانیں ایشیا اور 30 فیصد افریقا میں بولی جاتی ہیں۔

مادری زبانوں کے عالمی دن کے حوالے سے ملک بھرمیں واک، سیمینار، مذاکرے اور تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔مقررین نے کہاکہ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر گلوبلائزیشن پراسس کے باعث بیشتر زبانوں کو لاحق خطرات میں یا تو اضافہ ہو رہا ہے یا وہ ناپید ہوچکی ہیں۔دنیا میں بولی جانے والی 36 فیصد مادری زبانوں کے خاتمے کا خطرہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجابی دنیا میں بولی جانے والی 12 ویں اور اردو 20 ویں بڑی زبان ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں چینی، ہسپانوی، انگریزی، عربی، ہندی اور بنگالی ہیں۔

انگریزی 112 ممالک میں بولی جاتی ہے۔یونیسکو کے مطابق 1950 سے لیکر اب تک230مادری زبانیں ناپید ہوچکی ہیں جن کو بولنے والا اب کوئی نہیں ہے اٹلس آف ورلڈ لینگویج ان ڈینجر 2009 کے مطابق دنیا کی 36فیصد(2498)زبانوں کو اپنی بقا کے لئے مختلف النوع کے خطرات لاحق ہیں ایسے خطرات سے دوچار زبانوں میں سے 24 فیصد (607)زبانیں غیر محفوظ(جن کا استعمال بچے صرف گھروں تک کرتے ہیں)ہیں۔

25فیصد (632)ناپیدی کے یقینی خطرے (جنہیں بچے گھروں میں بھی مادری زبانوں کے طور پر نہیں سیکھتی)سے دوچار ہیں اس کے علاوہ 20فیصد (562) زبانوں کو خاتمہ کا شدید خطرہ(دادا پڑدادا کی زبان جو ماں باپ جانتے ہیں مگر بچے نہیں بولتی)لاحق ہے۔ 21.5 فیصد (538)زبانیں تشویش ناک حد تک خطرات (دادا پڑدادا میں بھی باقاعدگی سے نہ بولی جانے و الی زبان)کا شکار ہیں جبکہ 230تقریبا (10 فیصد)زبانیں متروک ہوچکی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات، صوبہ سرحد، بلوچستان، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی 27چھوٹی مادری زبانوں کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے ان میں سے 7 زبانیں غیر محفوظ گردانی جاتی ہیں جن کو بولنے والے 87 ہزار سے 5 لاکھ تک ہیں اس کے علاوہ 14 زبانوں کو خاتمے کا یقینی خطرہ لاحق ہے جن کو بولنے والوں کی تعداد کم سے کم 500 اور زیادہ سے زیادہ 67ہزار ہے جبکہ 6زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے 200سے 5500کے درمیان ہیں یہ زبانیں ختم ہونے کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔

مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28ویں نمبر پر ہے جبکہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں امریکا کی 191 برازیل کو 190 انڈونیشیا کی 147 اور چین کی 144 زبانوں کی بقا کو خطرہ ہے ۔ زبانوں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے Enthologue کے مطابق ملکوں کے حوا لے سے انگریزی سب سے زیادہ 112ممالک میں بولی جاتی ہے اس کے بعد 60ممالک میں فرنچ، 57میں عربی، 44میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44ممالک میں بولی جاتی ہے جبکہ اردو 23ہندی 20اور پنجابی 8ممالک میں بولی جاتی ہے۔

سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق ملک میں 48 فیصد آبادی پنجابی، 12فیصد سندھی، 10فیصد سرائیگی، 8فیصد پشتو، 8فیصد ہی اردو، 3فیصد بلوچی، 2فیصد ہندکو ایک فیصد براہاوی جبکہ انگریزی اور دیگر چھوٹی زبانیں 8فیصد بولی جاتی ہیں۔ یونیسکو کے مطابق دنیا میں بولی جانے و الی زبانوں کی تعداد 6912ہے۔ دنیا میں بولی جانے و الی 33 فیصد زبانیں ایشیا اور 30 فیصد افریقا میں بولی جاتی ہیں۔ دنیا میں دوسری زبان کے طور پر بولی جانے والی سب سے بڑی زبان انگریزی ہے کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ 820 زبانیں پاپانیوگنی میں بولی جاتی ہیں دنیا میں سب سے پہلی تحریری زبان 3200قبل مسیح کی مصری زبان ہے جبکہ 3500 سالہ قدیم چینی اور یونانی تحریریں آج بھی زندہ ہیں۔

متعلقہ عنوان :