کیا دستاویزات نہ دینا حکمت عملی کا حصہ ہے؟حسین نواز کے پاس اتنی مہنگی جائیداد خریدنے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟وزیراعظم کے صاحبزادوں کے وکیل کہتے ہیں سارا سرمایہ قطری شہزادے نے دیا،جبکہ اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھاگیا۔سپریم کورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 16 فروری 2017 12:38

کیا دستاویزات نہ دینا حکمت عملی کا حصہ ہے؟حسین نواز کے پاس اتنی مہنگی ..
ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 فروری۔2017ء) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حسین نواز کے پاس اتنی مہنگی جائیداد خریدنے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ حسن اور حسین نوازکے وکیل کہتے ہیں سارا سرمایہ قطری شہزادے نے دیا،جبکہ اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھاگیا۔ سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران آج بھی دستاویزات کا معاملہ حاوی رہا، عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ اربوں روپے کا معاملہ ہے اور آپ کہہ رہے ہیں ایک بھی دستاویز نہیں ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے آج بھی پاناما لیکس کی تحقیقات عدالت عظمیٰ کی جانب سے کرنے کی مخالفت جاری رکھی اور کہا کہ اس معاملے پر عدالت کمیشن بناسکتی ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالت کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ 4 جنوری سے ان درخواستوں کی سماعت کررہا تھا، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

سماعت میں سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھے اور اس بات پر زور دیا کہ عدالت اس معاملے میں کمیشن بنا سکتی ہے۔جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کمیشن بناسکتی ہے یا معاملہ متعلقہ اداروں کو بھی بھیج سکتی ہے تاہم انہوں نے بعض افراد کی جانب سے اداروں کے کام نہ کرنے کے بیانات کی بھی نشاندہی کی اور سوال کیا کہ اس صوت میں اب عدالت کیا کرے؟اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ عدالت کا وقت ضائع کیا جارہا ہے، اب تک کوئی کام نہیں ہوا۔

جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ خود سے کمیشن تشکیل دے کر انکوائری نہیں کر سکتی۔جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے میں شفاف ٹرائل کا کہا گیا ہے،کمیشن کسی شخص کو سزا یا جزا نہیں دے سکتا، وہ صرف انکوائری کے نتیجے میں اپنی رائے دے سکتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کمیشن کا کام شواہد اکٹھے کرنا ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ فوجداری معاملے کا ٹرائل کمیشن نہیں کر سکتا۔

جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم یہاں شواہد ریکارڈ نہیں کر رہے، مقدمے کی نوعیت کیا ہے اس کا فیصلہ آخر میں کریں گے۔ سماعت کے دوران پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا دستاویزات نہ دینا ا±ن کی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ جس کا جواب سلمان اکرم راجہ نے نفی میں دیا۔جسٹس کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں سارا سرمایہ قطری نے دیا، اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ کیا یہ جرم ہے یا ریکارڈ نہ رکھنے میں کوئی لاقانونیت ہے اور اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ کے کیس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں، یا ہم قطری والا موقف تسلیم کریں یا نہ کریں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس ایک یہ ہی موقف ہے اور دستاویزات نہیں ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ کہ میرے پاس جو دستاویزات تھیں پیش کر دیں، اب اگر آپ قطری والا موقف تسلیم نہیں کرتے تو پھر درخواست گزار کو ثابت کرنا ہے کہ ہم نے کیا جرم کیا ہے۔

جسٹس کھوسہ نے جواب دیا کہ اسی لیے تو میں کہ رہا ہوں کہ آپ جوا کھیل رہے ہیں اور جوا کسی کے حق میں بھی جا سکتا ہے۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مقدمہ صرف یہ ہے کہ مریم نواز جائیداد کی بینیفیشل ٹرسٹی ہیں یا نہیں۔سلمان اکرم راجہ نے دلائل کے دوران موزیک والی دستاویزات فراڈ کرکے تیار کرنے کا بھی خدشہ ظاہر کیا۔انہوں نے نشاندہی کی کہ موزیک نے اپنی دستاویز سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے دستاویز پر دستخط سے انکار کیا ہے۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ یہ دستاویز کہاں سے آئی؟ وزیراعظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے حسین نواز کے ملکیتی فلیٹس سے متعلق تازہ ترین دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائیں۔ان تفصیلات میں لندن فلیٹس کی ملکیتی دستاویزات بھی شامل ہیں، جن میں چاروں فلیٹس کی ملکیت 2006ءسے ظاہر کی گئی ہے۔دستاویزات کے مطابق حسین نواز نے لین دین کے لیے فیصل ٹوانہ کو اپنا نمائندہ مقرر کیا اور بارکلے بینک کے ذریعے ارینا لمیٹڈ نے منروا کمپنی کو 2014 میں ادائیگیاں کیں۔کمپنیوں کے آڈٹ سے متعلق تفصیلات کو بھی بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے۔

متعلقہ عنوان :