سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس، کمیشن کی رپورٹ میں وزیر داخلہ اوروزارت داخلہ کیخلاف آبز رویشن غیر ضروری ا ورانصاف کے تقاضوں کے منافی ہے،حقائق کو مد نظر نہیں رکھا گیا،وزارت داخلہ،عدالت نے وزارت داخلہ کوشہادتوں کے حوالے تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزیدسماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی

پیر 6 فروری 2017 23:52

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 فروری2017ء) وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں اپنے اعتراضات جمع کراتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ میں وزیر داخلہ اوروزارت داخلہ کیخلاف آبز رویشن غیر ضروری ا ورانصاف کے تقاضوں کے منافی ہے، رپورٹ میں حقائق کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔

اور حقائق کا پتہ چلائے بغیر آبزرویشن دی گئی ہیں پیرکو جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پروزارت داخلہ نے کمیشن کی رپورٹ پراعتزاضات سے متعلق اپنا جواب عدالت میں جمع کر ادیاجس میں کہاگیاہے کہ کمیشن کی جانب سے وزیر داخلہ،وزارت داخلہ کیخلاف آبزرویشن غیر ضروری اورانصاف کے تقاضوں کے منافی ہے ،کمیشن کی رپورٹ میں حقائق کو مد نظر نہیں رکھا گیا اور حقائق کا پتہ چلائے بغیر یہ آبزرویشن دی گئی ہیں ، رپور ٹ کے مطابق ملک بھر میں دہشتگردی کیخلاف موثرانفارمیشن کی بنیادپر 7522 آپریشن اور ایک لاکھ 52 ہزار سے زیادہ کومبنگ آپریشن کیے گئے، جس کے نتیجے میں 611 5 دہشت گرد گرفتار اور 1865 ہلاک کئے گئے،رپور ٹ کے مطابق 2014 ء کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے ۔

(جاری ہے)

2009 ء میں دہشت گردی کے 1938 واقعات جبکہ 2016 ء میں 769 واقعات ہوئے۔رپورٹ میں اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے کہاگیاہے کہ آرمی پبلک سکول اورواہگہ بارڈر سمیت متعدد واقعات کے رونماہونے سے بہت پہلے سیکورٹی الرٹ جاری کیے گئے تھے ، اس کے ساتھ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے نیکٹا کا بجٹ بڑھا کر 1.56 ارب روپے کر دیا گیا ہے دوسری جانب ملک بھر میں شناختی کارڈکا تصدیقی عمل شروع کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں 95959 شناختی کارڈ منسوخ جبکہ چار لاکھ 50 ہزار شناختی کارڈ کو عارضی طور پر بلاک کیا گیا ہے ،ایگزیکٹ کنڑول لسٹ کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا،وزارت داخلہ میں وی آئی پی کلچر کو ختم ،775 سرکاری افسران کو فارغ کیا گیا ہے ، جماعت احرار پر پابندی کی درخواست 16 اگست کو کی گئی،11 نومبر کو جماعت احرار کو کالعدم تنظیموں میں شامل کر دیا گیا ہے ،رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ21 اکتوبر کو وزیر داخلہ نے دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات کی، جو کالعدم تنظیم نہیں ہے، کمیشن کی رپورٹ کی آبزریوشن بے بنیاد ہیں، اس لئے استدعاکی جاتی ہے کہ ان کوحذف کیا جائے ، سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ کاسانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کے حوالے سے کہناتھا کہ جو کام تحقیققاتی ادارے کرتے ہیں وہ کمیشن نے کرلیا ہے،عدالت کووزارت داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان نے پیش ہوکربتایاکہ ہم کمیشن کی رپورٹ کو من و عن قبول کرتے ہیں، تاہم کمیشن کی جانب سے سفارشات مرتب کرتے وقت شہادتوں کو مروجہ طریقے کار کے مطابق نہیں پرکھاگیا ہے ، کمیشن رپورٹ میں وزیر کی جگہ وزارت داخلہ لکھا جائے ان کاکہناتھا کہ ہمیں کمیشن کی سفارشات یا اس کے اختیارپرکوئی اعتراض نہیں،اگر سفارشات کو عدالتی حکم کا درجہ مل جائے تو ان پر سب کے لئے عمل کرنا لازمی ہو جائے گا، لیکن ہماراموقف ہے کہ شہادتوں کے حوالے سے وزارت داخلہ کا موقف ریکارڈ پر آنا ضروری ہے ، سماعت کے دوران عدالت کو ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ صوبائی حکومت کمیشن کی رپورٹ پر من عن عمل کررہی ہے ، جس پرجسٹس امیر ہانی مسلم نے و اضح کیا کہ کمیشن کی رپورٹ سفارشات کا درجہ رکھتی ہیں یہ عدالتی حکم نہیں، اگر وزارت داخلہ شہادتوں کے حوالے سے اپنا تحریری موقف پیش کرناچاہتی ہے توعدالت مہلت دیگی،جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالت عوام کے وسیع تر مفاد میں اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کر رہی ہے ، ہمیں قومی مفاد کو دیکھناہے ، کوئی حکومت نہیں چاہتی کہ سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات ہوں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کہیں انسانی غلطی ہوسکتی ہے، جب کوئی ایک شخص تباہی مچاتا ہے تو اسے پکڑنا آسان کام نہیں، بعد ازاں عدالت نے وزارت داخلہ کوشہادتوں کے حوالے تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزیدسماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔