سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس، وزیر داخلہ نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا

کمیشن نے وزارت سے متعلق آبزرویشن دیتے ہوئے حقائق سامنے نہیں رکھے کوئٹہ کا واقعہ ایک قومی سانحہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،ْ پاک فوج، وزارت داخلہ نے مل کر دہشت گردی ختم کرنے کیلئے کام کیا ،ْ واقعہ کے فوری بعد دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا عمل شروع کر دیا ،ْ وفاقی دارالحکومت میں جلسے کا اجازت نامہ وزیر داخلہ نہیں دیتا ،ْجواب کا متن

جمعہ 3 فروری 2017 15:05

سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس، وزیر داخلہ نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 فروری2017ء) سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئٹہ کا واقعہ ایک قومی سانحہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزارت داخلہ سے متعلق آبزرویشن دیتے ہوئے کمیشن نے حقائق سامنے نہیں رکھے جبکہ کمیشن کے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے وزارت داخلہ کو مکمل ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

یہ جواب وزیر داخلہ کے وکیل مخدوم علی کی جانب سے جمع کرایا گیا ہے جو 64 صفحات پر مشتمل ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ کوئٹہ کمیشن نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق وزارت داخلہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے 6 فروری تک جواب طلب کیا تھا ۔ 6 اکتوبر 2016ء میں سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ پر کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا جس نے وزارت داخلہ سے متعلق آبزرویشن دیتے ہوئے حقائق سامنے نہیں رکھے جبکہ اعتراضات کا جواب دینے کیلئے وزارت داخلہ کو مکمل ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

(جاری ہے)

جواب میں کہا گیا کہ ملک میں تمام سیکیورٹی ادارے پوری ذمہ داری سے کام کر رہے ہیں اور پاک فوج، وزارت داخلہ نے مل کر دہشت گردی ختم کرنے کیلئے کام کیا۔ وزارت داخلہ نے اگست 2016ء کے واقعہ کے بعد فوری ایکشن لیا اور دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا عمل شروع کر دیا ،ْ شدت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دینے اور مکمل پابندی لگانے میں تین ماہ لگے۔

جواب میں بتایا گیا کہ دہشت گرد تنظیم پر پابندی ایک دم نہیں لگائی جا سکتی بلکہ طریقہ فالو کرنا پڑتا ہے ،ْ میڈیا، سوشل میڈیا یا دہشت گرد تنظیم کے دعوے پر کالعدم قرار نہیں دے سکتے اور اگر سوشل میڈیا کے دبائو میں پابندی لگائیں تو اصل مجرمان تک نہیں پہنچ سکتے۔ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان مہمند کو 2001ء میں کالعدم قرار دیا گیا۔ کمیشن رپورٹ میں تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وزارت اور ادارے کارروائی سے ہچکچا رہے ہیں اور کہا گیا کہ وزارت داخلہ نے ایجنسیوں سے شدت پسندوں تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کی رپورٹ مانگی۔

انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رپورٹ لینا غیر منطقی بات نہیں بلکہ طریقہ کار ہے۔وزارت داخلہ کے جواب کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا کہ لاہور چرچ دھماکوں کے بعد جماعت الاحرار پر پابندی نہیں لگائی حالانکہ لاہور چرچ حملے پر پنجاب حکومت نے بتایا تھاکہ ذمہ داروں کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے ۔ کمیشن رپورٹ میں کہا گیا کہ برطانیہ نے بھی جماعت الاحرار کو کالعدم قرار دیا ہے، ہر ملک کے اپنے قوانین، اصول اور طریقہ کا ہیں اور پاکستان نے اپنے طریقہ کار کے مطابق تنظیموں کو کالعدم قرار دیا۔

اہل سنت و الجماعت کو اسلام آباد میں جلسہ کی اجازت دینے کا اختیار انتظامیہ کا ہے اور وفاقی دارالحکومت میں جلسے کا اجازت نامہ وزیر داخلہ نہیں دیتا۔وزیر داخلہ سے اسلام آباد میں جلسہ کی اجازت نہیں لی گئی، آبپارہ میں جلسہ دفاع پاکستان کونسل کا تھا اور اسی جماعت کو این او سی دیا گیا تھا لیکن کمیشن نے دفاع پاکستان کے جلسے کو اہلسنت و الجماعت کا جلسہ قرار دیدیا۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر داخلہ پر مولانا احمد لدھیانوی سے ملاقات کا الزام لگایا گیا لیکن جس ملاقات کا کہا گیا کہ وہ دفاع پاکستان کونسل سے تھی۔ مولانا احمد لدھیانوی اہلسنت والجماعت کے لیڈر ہیں لیکن ریکارڈ میں اہلسنت والجماعت کے رہنماء احمد لدھیانوی کا نام نہیں۔ سپاہ صحابہ پاکستان، ملت اسلامیہ اوراہلسنت والجماعت کالعدم جماعتیں ہیں جبکہ سپاہ صحابہ پاکستان اور ملت اسلامیہ مولانا احمد لدھیانوی سے منسلک ہیں ،ْضروری نہیں کہ شدت پسند تنظیم کے سربراہ کو بغیر کسی دفعہ کے دہشت گرد قرار دیا جائے۔

مولانا احمد لدھیانوی نے عام انتخابات میں حصہ بھی لیا،لیکن کامیاب نہیں ہوئے، کسی شخص کو دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے اس پر دہشت گردی کی دفعات کا ہونا لازم ہے۔جواب میں وزارت داخلہ کی گزشتہ 3سال کی کارکردگی کی تفصیلات بھی بتائی گئیںاور کہا گیا کہ وزیر داخلہ کی سربراہی میں 3 سال میں دہشت گردی ختم کرنے کیلئے بے پناہ اقدامات کئے گئے۔ وزارت نے طالبان رہنماوئں سے مذاکرات کوکامیاب بنانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن شدت پسندوں نے مذاکرات کامیاب نہ ہونے دئیے جس کے بعد ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور نیکٹا کو فعال کیا گیا۔ 3سال میں ملک کی سیکیورٹی کی صورتحال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔