سپریم کورٹ میں ہسپتالوں سے آکسیجن سلنڈر، ادویات کی چوری سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت، سرکاری ہسپتالوں میں تشخیصی سہولیات و آلات ، ٹیسٹ اخراجات بارے تفصیلی رپورٹس طلب

بدھ 1 فروری 2017 22:51

سپریم کورٹ میں ہسپتالوں سے آکسیجن سلنڈر، ادویات کی چوری سے متعلق ازخود ..
اسلام آباد ۔ یکم فروری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 فروری2017ء) سپریم کورٹ نے ہسپتالوں سے آکسیجن سلنڈر اور ادویات کی چوری سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں تمام سرکاری ہسپتالوں میں تشخیصی سہولیات و آلات اور وسائل ،استعمال کے اوقات کار ، ٹیسٹ کرانے کے اخراجات اور وصولی کے بارے تفصیلات پر مبنی رپورٹس طلب کرتے ہوئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پولی کلینک کوہدایت کی کہ بلڈ بیگز کی فروخت اور آکسیجن فلو میٹرز کی خریداری میں خورد برد سے متعلق رپورٹ بھی عدالت کوپیش کی جائے ۔

عدالت نے قراردیاکہ لوگ زندگیاں بچانے کیلئے خون کاعطیہ دیتے ہیں جس کو بازار میں یا غریب مریضوں کو فروخت کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔ ہم عوام کے وسیع تر مفاد میں آئین و قانون کے تحت کیس کا فیصلہ کریں گے ۔

(جاری ہے)

بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر الرحمن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو آگا کیا کہ عدالت نے اپنے 27ستمبر کے حکم میں ایف آئی اے کو معاملات دیکھنے کی ہدایت کی تھی ، اور ایف آئی اے نے تفتیش کے بعد معاملے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے دو ایف آئی درج کی ہیں ایک میرٹ کے خلاف غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق ہے دوسری ایف آئی آر اکسیجن اور ادویات کی خرد برد میں ملوث افراد کے خلاف ہے ، انہوں نے بتایا کہ 3کروڑ 46لاکھ کی مبینہ کرپشن میں متعدد افراد ملوث ہیں انکوائری کے بعد 2کروڑ 70 لاکھ روپے واجب الادا میں سے تین ملزمان نے 35لاکھ فی کس کے حساب سے رقم جمع کروادی ہے مزیددو ملزمان میں سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ ڈائریکٹر ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر پڑا ہے جس کوصحت یاب ہونے پر گرفتار کرلیا جائے گا، عدالت میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جمع کردہ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ہسپتالوں کے سی ای اوز سمیت دیگر بھرتیاں ایف ایس ٹی کے ذریعے کی جارہی ہیں، اورسارے کام وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی کررہی ہے، عدالت کو درخواست گزار ڈاکٹر وقار آفتاب نے بتا یا کہ پولی کلینک میں 10آکسیجن فلو میٹرز کی ضرورت تھی ،تاہم انتطامیہ نے ملی بھگت سے 10کو 100 تک بڑھاکر خریدے تھے ، ان کاکہناتھا کہ پولی کلینک میں بلڈ بینک سے خون فروخت کیاجا رہا ہے ،لوگ زندگیاں بچانے کیلئے خون عطیہ کرتے ہیں جس کوہسپتال انتظامیہ یہ خون بیچ رہی ہے ،انہوں بتایا کہ ان کی درخواست کے ساتھ ان 8 ٹیکنیشنز کے اعترافی بیانات بھی منسلک ہیں جنھوں نے خون فروخت کرنے کا اعتراف کیا ہے ،جس پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل معافی جرم ہے ، ہم نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے چاہے ایک ایک کرکے کیوں نہ سب کوسناجائے ، ایگزیکٹو ڈائریکٹرپولی کلینک نے کہاکہ مجھے چارج لئے ابھی تین ماہ ہوئے ہیں ، اس معاملہ کو دیکھ رہا ہوں ۔

ڈاکٹر آفتاب نے مزید بتایاکہ پمز میں ایم آرآئی اور سی ٹی اسکین فعال نہیں ،تشخیصی آلات صر ف وفاقی سرکاری ملازمین کے لئے ہیں ،عوام کے لیے نہیں ،عام عوام کو بھی سہولیات ملنی چاہئیں ،پمز کے جگر کے پیوند کاری کے مرکز میں42کروڑ 26لاکھ روپے کا فنڈ تھا ،تاہم آلات چوری ہوگئے ،یہاں صرف ایک مریض کے جگر کی پیوند کاری ہوئی وہ بھی زندہ نہیں بچ سکا،چھاتی کے سرطان کے مرکز کی عمارت بننے سے قبل آلات خریدے گئے تھے ،20 اس کیلئے کروڑ روپے کا فنڈ تھا۔

لیکن 2009ء سے اب تک کچھ نہیں ہو ا،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کروڑوں روپے کے فنڈز کہاں خرچ ہوئے ہیں ہم یہ جاننا چاہتے ہیں جس کیلئے فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم بھی جاری کرسکتے ہیں عدالت شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کا معاملہ بھی دیکھے گی ، ا س معاملے کا کینوس بڑا ہوگیا ہے، بعد ازاں مقدمے کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی گئی۔