پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے ساتھ خنجر سے گوادر تک 800 کلومیٹر طویل فائبر آپٹک کیبل کو بچھانے کا منصوبہ -پاکستان میں انٹرنیٹ ٹریفک کا کچھ حصہ اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل بھارت میں ٹھہرتا ہے، جو پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ میجر جنرل عامر عظیم باجوہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 25 جنوری 2017 16:35

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے ساتھ خنجر سے گوادر تک 800 کلومیٹر طویل ..

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25جنوری۔2017ء) پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے ساتھ ساتھ خنجر سے راولپنڈی اور پھر گوادر تک 800 کلومیٹر طویل فائبر آپٹک کیبل کو بچھایا جائے گاجو کراچی تک پہنچے گی۔پاکستان میں انٹرنیٹ ٹریفک کا کچھ حصہ اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل بھارت میں ٹھہرتا ہے، جو پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

خصوصی تعلقات کی تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عامر عظیم باجوہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ایک بریفنگ میں آگاہ کیا کہ جو نیٹ ورک زیر سمندر کیبل کے ذریعے انٹرنیٹ ٹریفک کو پاکستان لے کر پہنچتا ہے وہ ایک کنسورشیئم کا تیار کردہ ہے جبکہ بھارتی کمپنیاں اس کنسورشیئم کی یا تو شراکت دار یا حصے دار ہیں جس کی وجہ سے یہ پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔

(جاری ہے)

میجر جنرل عامر کا کہنا تھا کہ ہم ایسا متبادل نیٹ ورک سسٹم پیش کرنا چاہتے ہیں جو گوادر میں لگایا جائے اور وہ انٹرنیٹ ٹریفک کو کنٹرول کرے۔اس ضمن میں وہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت کراس بارڈر آپٹک فائبر کی تشکیل کے لیے منظوری حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ڈی جی میجر جنرل عامر کا قائمہ کمیٹی کو بتانا تھا کہ بھارتی شراکت داروں کے بغیر موجود کسی بھی کنسورشیئم کو سی پیک کے ساتھ یہ نیٹ ورک بچھانے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک اور اس سے جڑے منصوبوں کی سیکیورٹی پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔جنرل عامر کے مطابق نیا نیٹ ورک پاکستان کو دنیا سے چین کے ذریعے منسلک کرے گا- اس طرح پاکستان کا زیر سمند کیبلز پر انحصار بھی کم ہوجائے گا، جو اکثر خراب ہو کر ملک میں انٹرنیٹ سروس کی بندش کا سبب بنتی ہیں۔منصوبے کی اسٹریٹیجک اہمیت سے متعلق آگاہ ہونے کے بعد کمیٹی نے منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایس سی او کو اس پر مشترکہ کام کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔

کمیٹی نے حکومتی اداروں اور ڈیوڑنز کو خودکار نظام قائم کرنے میں ہونے والی ناکامی اور پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔واضح رہے کہ الیکٹرانک آفس کا منصوبہ 2007 میں شروع ہوا تھا جبکہ اس کو 12-2011 میں دوبارہ شروع کیا گیا، منصوبے کی تکمیل کی ڈیڈ لائن جون 2017 مقرر کی گئی تھی۔کمیٹی نے یہ خیال ظاہر کیا کہ منصوبے کی تکمیل تاخیر کا شکار ہوئی ہے۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے 480 ارب ڈالر کے خرچے اور 7 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو فراہم کی گئی تربیت کے بعد صرف چند ہی دفاتر ہیں جہاں دفتر میں کاغذی ماحول کو ختم کیا جاسکا ہے۔وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان کے مطابق ان کے دفتر سرکاری ملازمین کو کمپیوٹرائزڈ سسٹم کی تربیت فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرلیا ہے۔

انوشہ رحمان کا کہنا تھا کہ کئی وزارتیں اور ڈیویڑنز ایسے ہیں کو جدید سسٹم کو لاگو کرنے کے لیے تیار نہیں اور تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں ہم نے وزیراعظم کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ تمام دفاتر کے لیے آٹومیٹڈ نظام کو لازمی قرار دیں ۔کمیٹی چیئرمین اور پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن محمد صفدر نے بھی انوشہ رحمان کو ہدایت دی کہ وہ کابینہ کے اگلے اجلاس میں معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھائیں۔