آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ،کچھ تو پڑھ لیا ہوتا ،ْعدالت عظمیٰ کا جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل پر سخت برہمی کا اظہار

آپ کو پتہ ہی نہیں ،ْ فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں،قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں ،ْ ججز کے ریمارکس مجھے پیراگراف127 پڑھنے کی اجازت دیں ،ْ وکیل جماعت اسلامی آپ نے اپنے موکل کو جتنا نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیا ،ْ جو دل کرتا ہے ،ْ پڑھتے رہیں ،ْ جسٹس شیخ عظمت سعید برہم لگتا ہے عدالت مجھے سننا ہی نہیں چاہتی ،ْتوفیق آصف آپ چاہیں تو گیارہ سال تک دلائل دیں لیکن ایک ہی بات بار بار نہ دہرائیں ،ْجسٹس شیخ عظمت سعید کا جواب وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کر کے بیان ریکارڈ کیا جائے ،ْ الزامات کا جواب طلب کیا جائے ،ْوکیل جماعت اسلامی جب ہم سب کو سن لیں گے تو فیصلہ کریں گے ،ْ ضرورت ہوئی تو نواز شریف کو بلائیں گے ورنہ نہیں ،ْ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا جواب دوسروں کے سہارے حاصل کرنے والا زیر کفالت ہے ،ْاحسن الدین کے دلائل شروع تمام ثبوت سامنے آنے کے بعد عدالت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے ،ْاحسن الدین ایڈووکیٹ سارے ثبوت کون سے ہیں جسٹس گلزار احمد ………اس سب کو ثبوت نہیں مواد کہہ سکتے ہیں ،ْجسٹس آصف سعید کھوسہ

منگل 24 جنوری 2017 14:45

آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ،کچھ تو پڑھ لیا ہوتا ،ْعدالت عظمیٰ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جنوری2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ،ْوکیل صاحب! آپ کو پتہ ہی نہیں ،ْ آپ نے فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں ،ْآپ نے بے بس کر دیا ،ْ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں ۔

منگل کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو جماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف نے اپنے دلائل جاری رکھے۔جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کے آغاز میں ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں خالد انور نواز شریف کے وکیل نہیں تھے۔

(جاری ہے)

توفیق آصف نے جواب دیا کہ وہ خالد انور کے عدالت میں دیئے گئے دلائل بیان کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو اسٹیبلش کریں گے کہ مرحوم قانون داں خالد انور نواز شریف کی وکالت کرتے رہے ہیں۔توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں ذکر ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کے تھے ۔جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے میں لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی بات نہیں تھی ،ْعدالت نے فیصلہ میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا ،ْمبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف گڈ گورننس میں ناکام ہوئے۔انھوں نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ،ْکچھ تو پڑھ لیا ہوتا ،ْخالد انور نواز شریف کے نہیں درخواست گزار کے وکیل تھے۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے وکیل جماعت اسلامی توفیق آصف سے کہا کہ وکیل صاحب! آپ کو پتہ ہی نہیں ہے، آپ نے فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نہ آپ نے فائل دیکھی اور نہ فیصلہ پڑھا، وکیل صاحب آپ نے بے بس کر دیا ،ْ آپ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں'۔اس موقع پر توفیق آصف نے کہا کہ مجھے پیراگراف127 پڑھنے کی اجازت دیں ،ْجس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں۔وکیل جماعت اسلامی نے جواب دیا کہ خالد انور نے نواز شریف کا دفاع کیا تھا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ خالد انور کے پاس نواز شریف کا وکالت نامہ نہیں تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے توفیق آصف کوتاکید کی کہ وکیل کی استدعابتانے کے بجائے عدالت کی فائنڈنگ بتائیں۔جماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل کے دوران لندن فلیٹس کا تذکرہ کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ فلیٹس التوفیق کیس میں گروی رکھے گئے۔اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے اپنے موکل کو جتنا نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیاجس پر توفیق آصف نے جواب دیا کہ لگتا ہے آج عدالت مجھے سننا ہی نہیں چاہتی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہیں تو گیارہ سال تک دلائل دیں لیکن ایک ہی بات بار بار نہ دہرائیں۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ نواز شریف 12 اکتوبر کو گرفتار ہوئے اور معاہدے کے تحت بیرون ملک گئے۔جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ ابھی تک آپ نے جو حوالے دیئے ان کا لندن فلیٹس سے کیا تعلق بنتا ہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ ہمیں وہ پڑھانا چاہتے ہیں، جو اس فیصلے میں لکھا ہی نہیں۔

بنچ کے سربراہ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ آپ جن فلیٹس کا حوالہ دے رہے ہیں اس حوالے سے فیصلے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔جماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم چونکہ جیل میں تھا اسی لیے کسی اور نے ادائیگی کر دی تھی جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ دلیل دفاع کے وکیل نے دینی تھی آپ نے دے دی نجی ٹی وی کے مطابق اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنمائوں نے جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل پر قہقہے لگائے۔

توفیق آصف نے دبئی ملز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طارق شفیع کا بیان حلفی درست نہیں تھا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اس کو غلط ثابت کرنے کیلئے جوابی بیان حلفی دیا تھا توفیق آصف نے جواب دیا کہ عدالت اگر چاہے تو شہادتیں بھی ریکارڈ کرا سکتی ہے تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جواب دیا کہ فیصلے میں ان تمام زاویوں کا جائزہ لیں گے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دبئی مل کی فروخت سے لندن فلیٹس خریدے گئے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شک کا فائدہ کس کو جاتا ہے۔توفیق آصف نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کر کے بیان ریکارڈ کیا جائے اور الزامات کا جواب طلب کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف پر تمام درخواست گزاروں کو جرح کا موقع دیا جائے۔

جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جواب دیا کہ جب ہم سب کو سن لیں گے تو اس بارے میں فیصلہ کریں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو نواز شریف کو بلائیں گے ورنہ نہیں اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل مکمل ہوگئے۔جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاناما کیس میں عدالت کے معاون احسن الدین نے زیر کفالت ہونے کے لغوی معنی اور تشریح بیان کی اور بتایا کہ دوسروں کے سہارے حاصل کرنے والا زیر کفالت ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ وزیراعظم نواز شریف نے 2012 میں مریم نواز کے نام پر مانسہرہ میں جائیداد خریدی تھی ،ْوہ زیر کفالت تھیں۔اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے زیر کفالت ہونے پر کسی کی نااہلی کا فیصلہ بھی دکھانے کا کہا۔ایڈووکیٹ احسن الدین نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے کہا کہ تمام ثبوت سامنے آنے کے بعد عدالت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔

جس پر جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ سارے ثبوت کون سے ہیں ،ْ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس سب کو ثبوت نہیں موادکہہ سکتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ اگر قانون شہادت کو پرکھنے پر معلوم ہوا کہ مواد کا بڑا حصہ فالتو ہے تو پھر کیا ہوگا جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ نتیجہ اخذ کرنے کیلئے عدالت کو کیا طریقہ اختیارکرنا چاہیے جس پر شیخ احسن الدین نے جواب دیا میں طریقہ کار کا تعین کیسے کرسکتا ہوں ،ْیہ آپ نے دیکھنا ہے۔بعدازاں کیس کی سماعت (آج)23 جنوری بدھ تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔