سینیٹ خصوصی کمیٹی برائے محروم طبقات کا اجلاس

شمالی و جنوبی وزیر ستان کے متاثرین کی باعزت واپسی سمیت فاٹا میں مسمار شدہ تمام گھروں کی سرکاری سطح پر تعمیر کی سفارش ․بیرونی ممالک سے ابتک متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کیلئے 166ملین ڈالر کی امداد ملی ہے وزارت خزانہ سے مزید 15ارب فنڈز کا مطالبہ خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی کرنے کی بھی سفارش

پیر 23 جنوری 2017 22:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 جنوری2017ء) سینیٹ خصوصی کمیٹی برائے محروم طبقات نے شمالی اور جنوبی وزیر ستان ایجنسی کے متاثرین کی باعزت واپسی سمیت فاٹا میں مسمار کئے جانے والے تمام گھروں کی سرکاری سطح پر تعمیر کی سفارش کی ہے،کمیٹی نے انسانی حقوق کمیشن کو مکمل طور پر آزاد اور خودمختار بنانے کے ساتھ ساتھ بھرپور فنڈز فراہم کرنے اور خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی کرنے کی بھی سفارش کی ہے جبکہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ متاثرین کی بحالی کیلئے کے لئے 35آرب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں بیرونی ممالک سے ابتک متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کیلئے 166ملین ڈالر کی امداد ملی ہے وزارت خزانہ سے مزید 15آرب روپے فنڈز کا مطالبہ کیا گیاہے ۔

کمیٹی کا اجلاس کنوینر نثار محمد کی صدارت میں منعقد ہوا اجلاس میں فاٹا سے بے گھر ہونے والے شہریوں کی حالت زار حکومت اور بیرونی اداروں کی طرف سے دی گئی امداد گھروں میں واپس جانے والے خاندانوں کو دی گئی امداد ، قومی انسانی حقوق کمیشن کے مسائل اور حل کے لیے اقدامات کے ایجنڈے پر غور ہوا اس موقع پر کنوینیر کمیٹی سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ کیری لوگر بل میں سے جس طرح خبیر پختونخوا کا ایک فیصد حصہ ہے اسی طرح فاٹا کا بھی حصہ بڑھایا جائے اور بے گھرخاندانوں کو باعزت طور پر اپنے علاقوں میں بحالی کی جائے انہوںنے کہاکہ ہمیں افواج پاکستان کی قربانیوں پر فخر ہے سول انتظامیہ کے اختیارات جلد سے جلد بحال کرکے فوج کو واپس بلایا جائے اور تعلیمی ماحول فراہم کرکے بچوں کو بہتر تعلیمی سہولیات دی جائیں انہوں نے کہا کہ فاٹا کے ہر علاقے میں جاکر موقع پر حالات کا جائزہ لیا جائے گا انہوں نے متاثرین کی واپسی نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ متاثرین کی مکمل واپسی نہ ہونے اور حکومت اور بیرون اداروں کے فنڈز کے اجراء کے حوالے سے کہا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے خاندانوں کے ہزاروں افراد گذشتہ دو سالوں سے اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے انہوںنے کہاکہ سڑکیں بنانے کی بجائے لوگوں کو گھر بناکر دینا حکومت کی ترحیح ہونی چاہیے انہوںنے کہاکہ65فیصد نقصانات کے علاقے فاٹا میں بچے بے آسرا اور والدین بے گھر ہیں کینسر کے مریض کی طرح بستر پر ڈالنے کی بجائے لوگو ں کو اپنے گھروں میںباعزت واپس کرکے نیکی اور اچھائی کمائی جائے انہوںنے کہاکہ یہ صورتحال نہ ریاست نہ ہی اداروں کے لیے اچھی ہے حکومت متاثرین کی ماہانہ امداد اور چار لاکھ کی قلیل رقم دینے کی جگہ خود گھر بنا کر دے انہوںنے متاثرین کی بحالی کے حوالے فنڈز کے اجراء میں تاخیر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وزارت خزانہ قسطوں میں ادائیگی کرتی ہے جہاں پچاس لاکھ کی ضرورت ہوتی ہے وہاں صرف دو لاکھ کی ادائیگی کی جاتی ہے انہوںنے کہاکہ شادی خیل ، شوال ، سپین وام کے بے گھر شہریوں کی باعزت واپسی کے لیے حالات بہتر کیے جائیں ان لوگوں کو گھروں سے دو دن میں نکا لا گیا مگر واپسی کے لیے ابھی تک حالات نہیں بنائے گئے ہیں اس موقع پروزارت سیفران کے حکام نے بتایا کہ فی خاندان پچیس ہزار روپیہ ماہانہ کے علاوہ دس ہزار ٹرانسپورٹ کے لیے اور نوے کلوگرام کا فوڈ پیکج دیا جاتا ہے انہوںنے بتایاکہ فاٹا کے علاقوں کی کلیرنس متعلقہ ادارے ہی کرتے ہیں شمالی اور جنوبی وزیر ستان کے لیے سولہ ہزار شیلٹر ہومز میںسے ابھی تکسات ہزار فراہم کردیئے گئے ہیںانہوںنے کہاکہ اس وقت تین لاکھ چھتیس ہزار بے گھر خاندان رجسٹرڈ ہیں جس میں دو لاکھ اٹھتر ہزار خاندان واپس لوٹ گئے ہیں جبکہ ستاون ہزار خاندان ایسے ہیں جو واپس نہیں گئے ہیں انہوںنے بتایاکہ کل تعداد میں سے تراسی فیصد خاندان واپس لوٹ گئے ہیں جن کو بارہ ہزار روپیہ ماہانہ فی خاندان معاونت دی گئی انہوںنے بتایاکہ فاٹا کے بے گھر قبائلیوں کو نقد امداد کی صورت میں مجموعی طور پر 35آ رب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں حکومت کی جانب سے مکمل تباہ ہونے والے گھروں کے مالک کو چار لاکھ جبکہ جزوی طور پر تباہ مکان کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ادا کر رہے ہیںاور اس مد میں 13 آرب دیئے گئے ہیںانہوںنے بتایاکہ بیرونی ممالک سے فاٹا کے لیے 166ملین ڈالر کی رقم موصو ل ہوئی جس میں چین نے 10 ، امریکہ نے 30 ، جرمنی نے 12 اور ترکی نے 5 ملین ڈالر جبکہ ورلڈ بنک نے 75 ملین ڈالرز دیئے ہیں انہوں نے بتایاکہ ضرب عضب کے دوران چوبیس سو خاندان افغانستا ن گئے تھے ان میں سے چھ سو خاندان واپس آگئے ہیں فاٹا سیکرٹریٹ نے وزارت خزانہ سے مزید 15 آرب مانگے ہیں انہوںنے بتایاکہ چین خیبر ایجنسی میں 68سکول تعمیر کرے گاہدف ہے کہ اکتیس مارچ 2017کے بعد کوئی شہری اپنے علاقے سے باہر نہ رہے انہوںنے بتایاکہ ابھی تک شوال ، شادی خیل اور سپین قمرعلاقے کلیئر نہیں ہوئے ہیں واپس نہ لوٹنے والے خاندانوں کا تعلق بھی ان علاقوں سے ہے انہوں نے بتایاکہ میران شاہ بازار میں بائیس سو دکانیں مکمل ہونے کے قریب ہیں بارہ سو مکانات کی تعمیر کا کام بھی جلد شروع ہوگا میر علی بازار میں بھی تین سو دکانیں تکمیل کے قریب ہیں سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ ملک کے لیے قربانی دینے والوں کے بارے میں غلط پیغام نہیں جانا چاہیے پورے ملک کو بچانے کے لیے جنہوں نے دہشت گردی کا رستہ روکا ان کی باعزت واپسی ہماری ذمہ داری ہے سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ چارلاکھ اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار نہایت قلیل رقم ہے اس رقم سے گھر تو کیا ٹوائلٹ بھی نہیں بنایاجاسکتا انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملکی اور بیرونی امداد سے بحالی و تعمیرات میں تیزی لائی جائے میر علی میں تعمیرات مکمل نہیں ہوئیں واپسی کیسے ممکن ہوگی کمیٹی نے سفارش کی کہ بے گھر خاندانوں اور افراد کی دوبارہ باعزت آباد کاری کے لیے حکومت گھر بناکر دے۔

(جاری ہے)

وزارت حکام نے کہا کہ کمیٹی علاقوں کا دورہ کرے ، وزارت بندوبست کرے گی کنوینر کمیٹی سینیٹر نثا رمحمد مالاکنڈ نے کہا کہ دورہ ضرور کیا جائے گا لیکن اجلاس کمروں کے اندر کرنے کی بجائے کھلی فضا میں عوام سے بھی رابطہ کریں گے اس موقع پر نادار حکام نے آگا ہ کیا کہ بے گھر خاندانوں کی بھر پور مدد کی جارہی ہے کمیٹی کو انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائر ڈ علی نواز چوہان نے کہا کہ کمیشن بننے کی وجہ سے پاکستان کوجی ایس پی پلس ملک کا درجہ دیا گیا ہے انہوںنے کہاکہ اس وقت کمیشن کومشکلات ہیںہم مالیاتی طور پر آزاد نہیں ہیں ہم نے مالیاتی آزادی کا مطالبہ کیا تھا جس کی وزارت قانون نے بھی حمایت کی ہے وزار ت قانون کو آئیند ہ اجلا س میں بلا کر موقف سنا جائے کیونکہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت کمیشن مکمل خود مختار اور آزاد ہے جس پرسینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ کمیشن حکومت کے کنٹرول سے مکمل آزاد ہونا چاہیے اگر وزارتوں کے ذریعے کمیشن چلانا ہے تو علیحدہ سٹاف کو ہٹا کر سیکشن افسر کے حوالے کردیں کنوینیرسینیٹر نثا رمحمد مالاکنڈ نے کہا کہ جب تک کمیشن مکمل خود مختار نہ ہو معاملات نہیں چل سکیں گے کمیشن کی مالی اور انتظامی آزادی ضروری ہے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ کمیشن کے معاملات کے حل کے لیے آئندہ اسٹبلشمنٹ ڈیویژن ، خزانہ و قانون و انصاف کے حکام بھی شرکت کریںاجلاس میں محروم طبقات اور خواجہ سراؤں کے بارے میں کمیشن کی طرف سے دو رپورٹس پیش کی گئیں کنوینر کمیٹی نے کہا کہ آئین کے ابتدائیے میں محروم ، پست طبقات اور اقلیتوں کا ذکر آیا ہے اندرونی حالات کو مد نظر رکھ کر دہشگردی کے شکار افراد اور بچوں کو بھی محروم طبقات میں شامل کیا جائے کمیشن کی طرف سے بتایا گیا کہ خواجہ سراؤں کی آئند ہ مردم شماری میں شامل کرنے موروثی جائیداد میں حصے ووٹ کے استعمال اور شناختی کارڈ جاری کرنے کا کا فیصلہ عدالتوںسے آیا ہے ان کے لیے خصوصی قانون اور جامع بل کی ضرورت ہے ۔

ایوان بالا میں سینیٹر حافظ حمد اللہ کی طرف سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے اٹھایا گیا معاملہ موخر کریا گیا کمیٹی ممبران میں سینیٹر محمد علی سیف ، میر کبیر محمد شاہی کے علاوہ قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان ، وزارت سیفران کے طارق حیات خان، وزارت انسانی حقوق کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔۔۔۔۔۔اعجاز خان

متعلقہ عنوان :