سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے محروم طبقات کااجلاس

بے گھرخاندانوں کو باعزت واپس لاکر جائیدادوں کی بحالی کی جائے،کمیٹی جب تک کمیشن مکمل خود مختار نہ ہو معاملات نہیں چل سکیں گے، کمیشن کے معاملات کے حل کیلئے آئندہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ، خزانہ و قانون و انصاف کے حکام بھی شرکت کریں، محروم طبقات اور خواجہ سراؤں کے بارے میں کمیشن کی طرف سے دو رپورٹس پیش کی گئیں

پیر 23 جنوری 2017 19:50

سلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جنوری2017ء) سینیٹ خصوصی کمیٹی برائے محروم طبقات کے کنوینیئر سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں وزارت سیفران سے فاٹا سے بے گھر ہونے والے شہریوں کی کل تعداد حکومت اور بیرونی اداروں کی طرف سے دی گئی امداد گھروں میں واپس جانے والے خاندانوں کو دی گئی امداد ، قومی انسانی حقوق کمیشن کے مسائل اور حل کیلئے اقدامات کے ایجنڈے پر غور ہوا۔

کنوینیر کمیٹی سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ نے کہا کہ کیری لوگر بل میں سے جس طرح خبیر پختونخوا کا ایک فیصد حصہ ہے اسی طرح فاٹا کا بھی حصہ بڑھایا جائے بے گھرخاندانوں کو باعزت واپس لاکر جائیدادوں کی بحالی کی جائے۔ افواج پاکستان کی قربانیوں پر فخر ہے سول انتظامیہ کے اختیارات جلد سے جلد بحال کرکے فوج کو واپس بلایا جائے۔

(جاری ہے)

تعلیمی ماحول فراہم کرکے بچوں کو بہتر تعلیمی سہولیات دی جائیں ۔

اور کہا کہ فاٹا کے ہر علاقے میں جاکر موقع پر حالات کا جائزہ لیا جائے گا ۔ افراد کی مکمل واپسی نہ ہونے اور حکومت اور بیرون اداروں کے فنڈز کے اجراء کے حوالے سے کہا کہ ساؤتھ اور نارتھ وزیرستان کے خاندانوں کے ہزاروں افراد دو سال سے گھروں کو واپس نہیں جاسکے ۔ سڑکیں بنانے کی بجائے لوگوں کو گھر بناکر دینا ترحیح ہونی چاہیے۔ 65فیصد نقصانات کے علاقے فاٹا میں بچے بے آسرا اور والدین بے گھر ہیں۔

کینسر کے مریض کی طرح بستر پر ڈالنے کی بجائے لوگو ں کو اپنے گھروں میںباعزت واپس کرکے نیکی اور اچھائی کمائی جائے ۔ یہ صورتحال نہ ریاست نہ ہی اداروں کے لیے اچھی ہے ۔ حکومت ماہانہ مد د اور چار لاکھ کی قلیل رقم دینے کی جگہ خود گھر بنا کر دے۔ وزارت خزانہ قسطوں میں ادائیگی کرتی ہے۔ جہاں پچاس لاکھ کی ضرورت ہے وہاں دو لاکھ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

شادی خیل ، شوال ، سپین کے بے گھر شہریوں کی باعزت واپسی کے لیے حالات بہتر کیے جائیں۔ لوگوں کو گھروں سے دو دن میں نکا لا گیا ۔ واپسی کے لیے ابھی تک حالات نہیں بنائے گئے۔وزارت سیفران حکام نے بتایا کہ فی خاندان پچیس ہزار روپیہ ماہانہ کے علاوہ دس ہزار ٹرانسپورٹ کے لیے اور نوے کلوگرام کا فوڈ پیکج دیا جاتا ہے۔ فاٹا کے علاقوں کی کلیرنس متعلقہ ادارے ہی کرتے ہیں ۔

ساؤتھ اور نارتھ وزیرستان کے لیے سولہ ہزار شیلٹر ہومز میںسے سات ہزار فراہم کردیئے گئے ہیں۔ اس وقت تین لاکھ چھتیس ہزار بے گھر خاندان رجسٹرڈ ہیں ۔ دو لاکھ اٹھتر ہزار خاندان واپس لوٹ گئے ہیں۔ ستاون ہزار خاندان ایسے ہیں جو واپس نہیں گئے ۔ کل تعداد میں سے تراسی فیصد خاندان واپس لوٹ گئے ہیں۔ بارہ ہزار روپیہ ماہانہ فی خاندان معاونت دی گئی اس مد میں پیتینس ارب دیئے جاچکے ہیں۔

مکمل تباہ ہونے والے گھروں کے مالک کو چار لاکھ ،جزوی تباہ مکان کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ادا کر رہے ہیں۔ اس مد میں تیرا ارب دیئے گئے ہیں۔ بیرونی ممالک سے فاٹا کے لیے 166ملین ڈالر کی رقم موصو ل ہوئی ۔ چین نے دس ، امریکہ نے تیس ، جرمنی نے بارہ اور ترکی نے پانچ ملین ڈالر اور ورلڈ بنک نے پچھتر ملین ڈالرز دیئے ۔ ضرب عضب کے دوران چوبیس سو خاندان افغانستا ن گئے ان میں سے چھ سو خاندان واپس آگئے ہیں۔

فاٹا سیکرٹریٹ نے وزارت خزانہ سے مزید پندرہ ارب مانگے ہیں۔ چین خیبر ایجنسی میں 68سکول تعمیر کرے گا۔ ہدف ہے کہ اکتیس مارچ 2017کے بعد کوئی شہری اپنے علاقے سے باہر نہ رہے ۔ ابھی تک شوال ، شادی خیل اور سپین قمرعلاقے کلیئر نہیں ہوئے۔ واپس نہ لوٹنے والے خاندانوں کا تعلق بھی ان علاقوں سے ہے ۔ میران شاہ بازار میں بائیس سو دکانیں مکمل ہونے کے قریب ہیں۔

بارہ سو مکانات کی تعمیر کا کام جلد شروع ہوگا۔ میر علی بازار میں بھی تین سو دکانیں تکمیل کے قریب ہیں۔ سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ ملک کے لیے قربانی دینے والوں کے بارے میں غلط پیغام نہیں جانا چاہیے۔ پورے ملک کو بچانے کیلئے جنہوں نے دہشت گردی کا رستہ روکا باعزت واپسی ہماری ذمہ داری ہے۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ چارلاکھ اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار نہایت قلیل رقم ہے۔

گھر تو کیا ٹوائلٹ بھی نہیں بنایاجاسکتا۔ ملکی اور بیرونی امداد سے بحالی و تعمیرات میں تیزی لائی جائے۔ میر علی میں تعمیرات مکمل نہیں ہوئیں واپسی کیسے ممکن ہوگی۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ بے گھر خاندانوں اور افراد کی دوبارہ باعزت آباد کاری کے لیے حکومت گھر بناکر دے۔ وزارت حکام نے کہا کہ کمیٹی علاقوں کا دورہ کرے ، وزارت بندوبست کرے گی۔

کنوینر کمیٹی سینیٹر نثا رمحمد مالاکنڈ نے کہا کہ دورہ ضرور کیا جائے گا لیکن اجلاس کمروں کے اندر کرنے کی بجائے کھلی فضا میں عوام سے بھی رابطہ کریں گے۔ نادار حکام نے آگا ہ کیا کہ بے گھر خاندانوں کی بھر پور مدد کی جارہی ہے۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائر ڈ علی نواز چوہان نے کہا کہ کمیشن بننے کی وجہ سے جی ایس پی پلس مل رہا ہے لیکن کمیشن کومشکلات ہیں۔

مالی آزادی نہیں جس کی وزارت قانون نے بھی حمایت کی ہوئی ہے ۔ وزار ت قانون کو آئند ہ اجلا س میں بلا کر موقف سنا جائے۔ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت کمیشن مکمل خود مختار اور آزاد ہے ۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ کمیشن حکومت کے کنٹرول سے مکمل آزاد ہونا چاہیے۔ وزارتوں کے ذریعے کمیشن چلانا ہے تو بند کرکے سیکشن افسر کے حوالے کردیں۔ کنوینیرسینیٹر نثا رمحمد مالاکنڈ نے کہا کہ جب تک کمیشن مکمل خود مختار نہ ہو معاملات نہیں چل سکیں گے۔

مالی اور انتظامی آزادی ضروری ہے ۔اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ کمیشن کے معاملات کے حل کے لیے آئندہ اسٹبلشمنٹ ڈیویژن ، خزانہ و قانون و انصاف کے حکام بھی شرکت کریں۔ محروم طبقات اور خواجہ سراؤں کے بارے میں کمیشن کی طرف سے دو رپورٹس پیش کی گئیں۔ کنوینر سینیٹر نثا رمحمد مالاکنڈ نے کہا کہ آئین کے ابتدائیے میں محروم ، پست طبقات ، اقلیتوں کا ذکر آیا ہے۔

اندرونی حالات کو مد نظر رکھ کر دہشگردی کے شکار افراد اور بچوں کو بھی محروم طبقات میں شامل کیا جائے ۔ کمیشن کی طرف سے بتایا گیا کہ خواجہ سراؤں کی آئند ہ مردمشماری میں گنتی ، موروثی جائیداد میں حصے ، ووٹ کے استعمال اور شناختی کارڈ جاری کرنے کا عدالتوں سے بھی فیصلہ آیا ہے۔ ان کے لیے خصوصی قانون اور جامع بل کی ضرورت ہے ۔ایوان بالا میں سینیٹر حافظ حمد اللہ کی طرف سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے اٹھایا گیا معاملہ موخر کریا گیا۔ کمیٹی ممبران میں سینیٹر محمد علی سیف ، میر کبیر محمد شاہی کے علاوہ قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان ، وزارت سیفران کے طارق حیات خان، وزارت انسانی حقوق کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :