پانامہ کیس ،سڑکوں پر جو ہونا تھا ہوچکا اب فیصلے کا انتظار کریں،سپریم کورٹ

پیر 23 جنوری 2017 14:45

پانامہ کیس ،سڑکوں پر جو ہونا تھا ہوچکا اب فیصلے کا انتظار کریں،سپریم ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 جنوری2017ء) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سمجھتا ہوں عدالت کے باہر جو کچھ کیا جاچکابہت ہے،اب سب لوگ انتظار کریں،جس نے جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا،سڑکوں پر جو ہونا تھا ہوچکا،اب فیصلے کا انتظار کریں، حکومت پر الزام نہیں پھر بھی حکومت پانامہ کا دفاع کر رہی ہے،کیس کو چلنے دیں سب انتظار کریں،سارے لوگ کمنٹری خود تک رکھیں اور فیصلے کا انتظار کریں۔

پیر کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت شروع ہوئی تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ گذشتہ سماعت کے سوالات سے میڈیا پر تاثر ملا جیسے عدالت فیصلہ کرچکی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم سوالات صرف سمجھنے کیلئے پوچھتے ہیں سوالات فیصلہ نہیں ہوتے،کیا وزیراعظم کی تقریر پارلیمانی کارروائی کا حصہ تھی ،توفیق آصف نے جواب دیا کہ وزیراعظم کی تقریر اسمبلی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی،استحقاق آئین اور قانون کے مطابق ہی دیا جاسکتا ہے،قواعد کے مطابق پرائیویٹ ممبر ڈے منگل کو ہوتاہے،اجلاس نہ ہوتو پرائیویٹ ممبر ڈے اگلے روز منتقل ہوجاتاہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا اسپیکر کو اختیار نہیں کہ وہ ان قواعد کو معطل کرسکی ،اسپیکر نے وزیراعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی ۔توفیق آصف نے کہاکہ وزیراعظم نے ذاتی وضاحت دینی تھی تو ایجنڈے میں شامل ہوناضروری تھا۔جسٹس گلزاراحمد نے پوچھا کیاوزیراعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا ،توفیق آصف نے کہاکہ اپوزیشن نے تقریر کے بعد واک آئوٹ کیا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ توفیق آصف آپ آرٹیکل 69پڑھیں اس پر دلائل دیں،اس معاملے کو آرٹیکل69مکمل کر رہاہے،جس پر توفیق آصف نے کہاکہ وزیراعظم کی تقریر آرٹیکل69کے زمرے میں نہیں آتی،وزیراعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی۔جسٹس اعجازالحسن نے کہاکہ اگر قواعد کی خلاف ورزی ہوئی تو کیا آپ کے اراکین نے آواز اٹھائی تھی ،توفیق آصف نے کہاکہ اپوزیشن نے خطاب کے بعد بائیکاٹ کیا تھا۔

جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کیا وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ سے حذف کی گئی،توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے،تقریر کارروائی کا حصہ ہے لیکن اس کو استحاق حاصل نہیں،وزیراعظم نے تقریر پیر کے روز کی اسپیکر قواعد کو منگل کے روز معطل کرسکتا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ کیا جس دن گوشت کا ناغہ ہے اس دن تقریر نہیں ہوسکتی،توفیق آصف نے پارلیمانی استحقاق پر آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل پیش کیا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ یہ کوئی بریگزٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی،توفیق آصف نے وزیراعظم کی اسمبلی تقریر کا ریکارڈ طلب کرنے کی استدعا کی جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تقریر کے متن سے کسی کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے،توفیق آصف نے کہا کہ ممکن ہے ترجمہ کرتے وقت کوئی غلطی ہوگئی ہو،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر اردو زبان میں تھی،جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر اہم ثبوت ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا ہم یہاں شواہد ریکارڈ کر رہے ہیں ،توفیق آصف نے کہا کہ عدالت چاہے تو شواہد ریکارڈ کرسکتی ہے۔ توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم نے اسپیکر کو جودستاویزات دیں،وہ طلب کی جائیں،وزیراعظم نے خود کہا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ عدالت کو بتادیں وزیراعظم نے کیا کیا چھپایا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے اسپیکر کو تقاریر پیش کی تھیں۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے ایف بی آر کا ریکارڈ بھی پیش کیا تھا،وہ ریکارڈ عدالت کے سامنے آچکا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ ایک نکتہ اٹھاتے ہیں پھر اسے خود ہی واپس لے لیتے ہیں۔توفیق آصف نے کہاکہ وزیراعظم نے تقریر میں منی ٹریل پیش نہیں کی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا فلیٹس نوازشریف کے نہیں وکیل نے کہا اس لیے منی ٹریل نہیں دے سکتے،توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم نے خود کہا دستاویزات میںٹھوس ثبوتوں کے انبار ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے ثبوتوں کی جگہ قانونی نکات کا انبارلگادیا،وزیراعظم کے وکیل نے ثبوتوں کا ذکر ہی نہیں کیا،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لگتا ہے باتیں دہرا کر آپ سماعت میں تاخیر چاہتے ہیں،توفیق آصف نے کہا کہ عدالت اجازت دے تو تقریر کے کچھ نکات پڑھنا چاہتا ہوں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ جیسے چاہیں دلائل دیں ہم خاموشی سے سنیں گے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ عدالت سے کم اور میڈیا سے زیادہ مخاطب لگتے ہیں،جماعت اسلامی کے وکیل نے وزیراعظم کی تقریر کے چند نکات پڑھے،توفیق آصف نے کہاکہ وزیراعظم نے دبئی فیکٹری کے افتتاح کی تصویر اپنی تقریر میں پیش کی،وزیراعظم نے تقریر میں خاندان کا لفظ استعمال کیا،خاندان میں بچے وزیراعظم کے بغیر کچھ نہیں،اسمبلی کے فلور پر بچوںکا دفاع کیا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا توقعات اور آئینی اہلیت دونوں مختلف چیزیں ہیں،توفیق آصف نے کہا کہ آرٹیکل62,63کو آرٹیکل218سے ملا کر پڑھیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل218تو الیکشن سے متعلق ہے دونوں کو ایک ساتھ کیسے پڑھ سکتے ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ کیا ہمارا کام تحقیقات کرنا ہی ،کیا عدالت کا کام ہے کہ وہ شواہد تلاش کرے،کیا درخواست گزار کو ریکارڈ پر کچھ نہیں لانا چاہیے،توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم نے تمام ثبوت ہونے کا دعویٰ کیا تھا،جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ وزیراعظم نے جو ریکارڈ دینا تھا دے دیا جو ریکارڈ نہیں دیا اس کا قانونی اثر دیکھا جائے گا،توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کے دفاع کیلئے وزراء عدالت آرہے ہیں،حکومتی مشینری کس کا دفاع کر رہی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سمجھتا ہوں عدالت کے باہر جو کچھ کیا جاچکابہت ہے،اب سب لوگ انتظار کریں،جس نے جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا،سڑکوں پر جو ہونا تھا ہوچکا،اب فیصلے کا انتظار کریں،توفیق آصف نے کہا کہ کیس حکومت کی کارکردگی پر نہیں بلکہ ایک خاندان کے خلاف ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حکومت پر الزام نہیں پھر بھی حکومت پانامہ کا دفاع کر رہی ہے،کیس کو چلنے دیں سب انتظار کریں،سارے لوگ کمنٹری خود تک رکھیں اور فیصلے کا انتظار کریں۔

توفیق آصف نے کہا کہ پارلیمنٹ کے فلور پرجھوٹ بولا گیا،پارلیمنٹ کے فلور کا دین تقدس ہوتاہے،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بیان کو جھوٹا کہنے سے پہلے سچائی کو سامنے لانا چاہیے،سچائی سامنے لانے کیلئے انکوائری کرنا ہوتی ہے،توفیق آصف نے کہا کہ نوازشریف نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے،توفیق آصف کی جانب سے رضوان گل جعلی ڈگری کیس کا حوالہ دیا،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اس کیس میں ٹربیونل نے شواہد ریکارڈ کرکے فیصلہ دیا تھا،توفیق آصف نے کہاکہ کیا عدالت کو اختیارحاصل ہے اس پر بھی دلائل دوں گا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دائرہ اختیار پر فیصلے دے چکے ہیں،پاکستان،بھارت کے نظام انصاف تک ہر شخص کی رسائی نہیں،30سی40فیصد آبادی عدالتوں میں نہیں آسکتی،عوامی مفاد کا کیس ان کیلئے ہوتا ہے جو عدالت نہ آسکے،توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم نے ریکارڈ ہونے کا دعویٰ کیا،دبئی ملز کا کوئی ریکارڈ نہیں دیا گیا۔ توفیق آصف نے کہاکہ جدہ رقم کیسے گئی،یہ بھی اہم سوال ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دبئی فیکٹری کی رقم جدہ گئی ہی نہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا مخدوم صاحب،کیا وزیراعظم نے کوئی ہدایات دیں ،مخدوم علی خان نے کہاکہ وزیراعظم آج رات وطن واپس آئیں گے،وزیراعظم سے جماعت اسلامی کی درخواست پر ہدایات لوں گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ وزیراعظم کا نام کسی دستاویزات میں نہیں۔ ساری ذمہ داری وزیراعظم پر کیسے ڈالیں گی ،توفیق آصف نے کہاکہ بے نامی جائیداد میں ایسے ہی کام چلایا جاتاہے،تمام کاروبار نوازشریف کا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ بات کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں ۔جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ 2004سے پہلے تو سب کچھ میاں شریف کے نام تھا،وکیل نے کہا کہ اس پر بھی شک ہے کہ دبئی فیکٹری میاں شریف کے نام تھی یا نہیں،توفیق آصف نے کہا کہ د بئی فیکٹری طارق شفیع کے نام پر تھی۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیا آپ نے طارق شفیع کے بیان حلفی کو چیلنج کر رکھا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ بارثبوت مخالفانہ مقدمہ بازی پر لگتا ہے،آپ ہمارے سوالات کے جواب نہیں دیتے،توفیق آصف نے کہاکہ ایک وقت میں ایک جج صاحب کے سوال کا جواب دے سکتا ہوں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پانچ رکنی بینچ ہوتو ایسے ہی ہوتا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایسی وکٹ پر اس طرح ہی کھیلا جاتا ہے،توفیق آصف نے کہاکہ وزیراعظم کے پاس اب بھی ثبوت پیش کرنے کا موقع ہے،اسمبلی میں صرف چار تصویریں اور ایف بی آر کے کاغذ پیش کیے گئے،وزیراعظم نے اسمبلی میں ثبوت دینے کاکہا،وزیراعظم عدالت میں تکنیکی نکات کے پیچھے چھپ گئے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ آپ سرکلر ڈیٹ کی طرح سرکلر دلائل دے رہے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ گیلانی کو بھی سپریم کورٹ نے براہ راست نااہل قراردیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ گیلانی کو فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر نوٹس جاری کیا گیا،گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قراردیاگیا،گیلانی کی نااہلی کیلئے عدالتی فیصلہ موجود تھا،توفیق آصف نے کہاکہ آرٹیکل19اے کے تحت وزیراعظم سے جواب لینا وزیراعظم کا حق ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آرٹیکل 19اے کا اطلاق کسی کی ذاتی زندگی پر ہوتاہی ،کیا آرٹیکل19اے کا اطلاق آپ پر بھی ہوتا ہی ،توفیق آصف نے کہا کہ آرٹیکل19اے کا اطلاق ہر پبلک آفس ہولڈر پر ہوتاہے،عدالت کی وجہ سے ایان اور عتیقہ اوڈھو آج تک کیسز بھگت رہی ہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ آپ ایان علی کے وکیل ہیں یا عتیقہ اوڈھو کی ،آصف توفیق نے کہاکہ وزیراعظم نے ذاتی الزامات کا جواب اسمبلی میں دیا۔

توفیق آصف نے کہا کہ ایان علی اور عتیقہ اوڈھو کی اسمبلی تک رسائی نہیں۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ حدیبیہ مل پاکستان میں تھی تو کیس لندن میں کیوں ہوا ،توفیق آصف نے کہاکہ کیس لندن میں چلنے کا جواب میں کیسے دے سکتا ہوں،وزیراعظم نے اثاثے چھپائے،وزیراعظم تمام جائیدادوںاور کاروبار کے اصل مالک ہیں،وزیراعظم نے کاروبار بچوں کے نام کیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے مطابق مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں،توفیق آصف نے کہاکہ دستیاب شواہد پر ہی نااہل قراردیاجائے،وزیراعظم کی تقریر ہی ان کے خلاف ثبوت ہے،جھوٹ پر پردہ ڈالنے کیلئے قطری ڈالاگیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آف شور کمپنی کا ریکارڈ کوئی پرائیویٹ بند نہیں لاسکتا،ریکارڈ اور بارثبوت کمپنی کے مالک پر ہی ہوگا۔ سماعت کل منگل تک ملتوی کردی گئی