پاکستان افغانستان سے مذاکرات میں سخت موقف اپنانے کے لیے تیار

مذاکرات آرمی چیف کے دورہ افغانستان کے موقع پر ہوں گے،واشنگٹن کی پالیسیوں میں تبدیلی سے پاکستان کو بہت سی غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع ملے گا،ذرائع

پیر 23 جنوری 2017 12:31

پاکستان افغانستان سے مذاکرات میں سخت موقف اپنانے کے لیے تیار
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 جنوری2017ء) پاکستان آئندہ ہفتوں میں افغانستان سے مذاکرات میں سخت موقف اپنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ مذاکرات آرمی چیف کے دورہ افغانستان کے موقع پر ہوں گے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بننے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے دورہ کابل کی دعوت دی تھی۔ اگرچہ جنرل باجوہ نے اصولی طور پر یہ دعوت قبول کر لی ہے لیکن وہ اس دورے کیلیے موزوں وقت کے منتظر ہیں۔

ایک سینئر سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکا کی نئی انتطامیہ کی جانب سے افغانستان پر موقف واضح ہونے کے بعد آرمی چیف افغانستان کا دورہ کریں گے لیکن بہرکیف وہ جب بھی افغانستان جائیں گے وہ افغان قیادت کو ایک ’واضح پیغام‘ دیں گے کہ اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو ذمہ دار قرار دینابند کرو۔

(جاری ہے)

توقع کی جارہی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ افغان قیادت کو دوٹوک انداز میں بتائیں گے کہ پاکستان اب کسی بھی گروہ کی نہ تو پشت پناہی کر رہا ہے اور نہ ہی کوئی پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔

اس کے بجائے وہ اس امر کے ناقابل تردید شواہد پیش کریں گے کہ کیسے افغان حکومت کے بعض عناصر پاکستان کے خلاف ہونے والے حملوں کی حمایت کر تے ہیں۔عہدیدار کے مطابق اس سب کچھ کے باوجود پاکستان افغانستان میں طویل عرصے سے جاری عدم استحکام کے خاتمے کیلیے سیاسی حل کی حمایت کیلیے کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کریگا۔جنرل قمر نے جب سے فوج کی کمان سبنھالی ہے اس وقت سے انھوں نے افغانستان سے رابطے استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے دو ہفتے کے دوران صدر غنی سے دومرتبہ فون پر بات کی پہلی مرتبہ نئے سال کے آغازپر دوسری مرتبہ کابل بم حملوں کی مذمت کیلیے اس موقع پر نہ صرف انھوں نے بم حملوں کی مذمت کی بلکہ افغانستان کو مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کیلیے مدد کی پیشکش بھی کی۔دریں اثنا آرمی چیف نے افغان صدر سے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے کے عمل (بلیم گیم) روکنے کیلیے درخواست بھی کی، ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کا رویہ کسی بھی ملک کے مقاصد کیلیے موزوں نہیں ہے۔

تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور افغان صدر نے پھر سے الزامات لگادیے اور اصرار کیا کہ ان کا ملک دونوں ممالک کے مستقبل کے حوالے سے پاکستان سے سنجیدہ بات چیت کا خواہاں ہے۔ادھر فارن آفس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایا ہے کہ پاکستان بھی افغانستان سے سنجیدہ بات چیت چاہتا ہے تاہم انھوں نے واضح کیا کہ سنجیدہ اور معنی خیز مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کا ارادہ دونوں ممالک کے مابین اختلافات کو حل کرنا ہے۔

دوسری جانب دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو اپنی نیوز بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ افغان عوام کے سب سے مخلص دوست اور خیر خواہ کی حیثیت سے پاکستان سے جب بھی درخواست کی گئی اس نے ہمیشہ افغان قیادت میں افغان عمل کیلیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام میں پاکستان کا بہت بڑا مفاد ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام سے کوئی اور ملک اتنا متاثر نہیں ہوتا جتنا پاکستان ہوتا ہے۔

لیکن اگلے قدم سے قبل پاکستان نئی امریکی انتظامہ سے توقعات لگائے ہوئے ہے کہ وہ افغانستان کی صورتحال کا زیادہ حقیقیت پسندانہ جائزہ لے گی اور اس کے حوالے سے ایسی ہی پالیسیاں بنائے گی۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان کیلیے ٹرمپ کی پالیسی اوباما کی پالیسیوں سے کیسے مختلف ہوں گی لیکن پالیسی سازوں کو محسوس ہوتا ہے کہ واشنگٹن میں پالیسیو ں میں ہونے والی کسی بھی تبدیلی سے پاکستان کو بہت سی غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع ملے گا۔