نامور تاریخ دان اور پروفیسر عائشہ جلال کا سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں - لیکچر

اتوار 22 جنوری 2017 18:00

کراچی (این این آئی۹ نامور تاریخ دان اور سینیٹر فار سائوتھ ایشین اینڈ انڈین اوشین اسٹڈیز، ٹفٹس یونیورسٹی میڈفورڈ ، مساچواسٹیٹس ، امریکا کی پروفیسر عائشہ جلال نے کہا ہے کہ آئینی بالادستی، سماجی انصاف اور پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ آج بھی ہمارے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے گذشتہ روز سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں -’’ قائد اعظم محمد علی جناح کے تصورات آج کے پاکستان سے کتنی مطابقت رکھتے ہیں -‘‘ کے موضوع پر طالب علموں اور فیکلٹی ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح برطانوی دور میں ایک عظیم مسلم رہنما کے طور پر ابھر کر آئے ۔ وہ آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔

(جاری ہے)

جس طرح قوموں کو ہیروز کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں اپنا رہنما منتخب کیا۔ قائد اعظم نے کئی مشکلاتوں کے باوجود برصغیر کی سیاست میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل کیا۔

وہ نوآبادیاتی مخالف نیشنلسٹ تھے۔ پروفیسر عائشہ جلالنے مزید کہا کہ 70 برس گذرجانے کے باجود آج بھی اس ملک میں یہ بحث ہورہی ہے کہ یہاں جمہوری نظام ہونا چاہیے یا آمرانہ ، اور اس ملک کو سیکیولر ریاست بننا چاہیے یا مذہبی ریاست ہونا چاہیئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح آئینی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور صوبائی اکائیوں کو وضع کردہ اختیارات کے حامل وفاق پر یقین رکھتے تھے اور اس بات کا ذکر انہوں نے واضح طور پر 11 آگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں اپنی کی گئی تقریر میں بھی کیا تھا۔

پروفیسر عائشہ جلال نے مزید کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح پنجاب اور بینگا ل کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے بلکہ اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا اور کانگریسی رہنما جواہر لعل نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل پنجاب اور بینگال کی تقسیم کے حق میں تھے۔ 1973 کے آئین پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 73 کے آئین میں صوبوں کو سینیٹ میں برابری کے بنیاد پر حقوق دیے گئے ہیں لیکن بعد میں اس آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے آئین کا اصل مقصد تبدیل ہوگیااور آج تک آئینی صورتحال تشویش ناک ہے۔

سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے ایک طالبعلم کی جانب س پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ہندو مسلم بھائی چارے کے حقیقی سفیر تھے لیکن نہرو اور پٹیل اس تعلقات کے مخالف تھے تاہم موہن داس کرم چند گاندھی نے اس حوالے سے 1920 تک مستند کردار ادا کیا۔اس سے قبل سندھ مدرستہ الاسلام کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ نے اپنے استقبالیہ خطاب میں عائشہ جلال کا سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں آمد پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ عائشہ جلال موجودہ دور کی عظیم تاریخدان ہیں اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح پر بہت اہم تحقیقی کام کیا ہے۔

قائد اعظم کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان امیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کا کنبہ بہت بڑا تھا اور وہ اپنی نو رکنی فیملی اراکین کے ہمراہ وزیر مینشن میں دو بیڈ کے ایک اپارٹمینٹ میں رہائش پذیر تھے لیکن اس کے باجود انہوں نے اپنی محنت اور انتھک کاوشوں سے سیاست میں ایک بہت ہی بڑا مقام حاصل کیا۔ اس وقت بینگال ، پنجاب اور بمبئی، اور برصغیر کے دوسرے حصوں میں کئی نامور مسلمان رہنما موجود تھے تاہم قائد اعظم محمد علی جناح ایک چھوٹے سے صوبے سندھ اور اقلیتی کمیونٹی آغاخان جماعت سے تعلق رکھنے کے باجود وہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک بڑے رہنما بن کر ابھرے۔

جو کہ انکے اندر ایمانداری لیڈرشپ کوالٹی اور سیاسی شعور کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ڈاکٹر محمد علی شیخ نے مزید کہا کہ اس ملک کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تصورات اور افکار پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہی اب وہ واحد رستہ ہے جس کی وجہ سے یہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔ لیکچر پروگرام میں غیر ملکی سفرا،ْ، نامور تعلیم دان اور سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے ڈینز ، چیئرپرسنز ، سینیئر فیکلٹی ، اسٹاف ارکان اور طالبعلموں نے شرکت کی۔ پروفیسر عائشہ جلال نے وائس چانسلر اور دیگر مہمانان کے ہمراہ سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں موجود جناح میوزم کا دورہ بھی کیا۔

متعلقہ عنوان :