سی پیک کی طرح کریمینل جسٹس پائلٹ پراجیکٹ عدلیہ کے لئے گیم چینجر ثابت ہوگا‘جسٹس آصف سعید خان کھوسہ

پوری دنیا میں مسلسل ٹرائل کا نظام موجود ہے، کسی بھی مقدمہ کو مخصوص ٹائم فریم میں نمٹا دیا جاتا ہے، ہمیں بھی اپنے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے، ان حالات میں جلد انصاف کی فراہمی ممکن ہے‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس کا کریمینل جسٹس سسٹم کے پائلٹ پراجیکٹ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب ہمیں روٹین سے ہٹ کر نئے طریقہ کار کے تحت کام کرنا ہوگا، سول اور فوجداری مقدمات کو علیحدہ علیحدہ کر کے قابل عمل کاز لسٹ جاری ہوگی‘ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ

ہفتہ 21 جنوری 2017 18:50

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی ہمارا ولین فریضہ ہے لیکن ہمارے نظام کی بد قسمتی ہے کہ یہاں دادا مقدمہ دائر کرتا ہے اور پوتے کو مقدمہ لڑنا پڑتا ہے، انصاف کی جلد فراہمی کیلئے مقدمات کو غیر ضروری ملتوی کرنے کی روایت ختم کرنا ہوگی، جس طرح سی پیک پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا اسی طرح کریمینل جسٹس کے حوالے سے متذکرہ پائلٹ پراجیکٹ بھی عدلیہ کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔

فاضل جسٹس پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میںپائلٹ کریمینل جسٹس پراجیکٹ کے حوالے سے منعقدہ سمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ، مسٹر جسٹس محمد یاور علی، مسٹر جسٹس سید کاظم رضا شمسی، مسٹر جسٹس عبد السمیع خان، مسٹر جسٹس صداقت علی خان ، مسٹر جسٹس چودھری عبد العزیز، رجسٹرار سید خورشید انور رضوری، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمان، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور ڈی جی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے علاوہ اٹک، چنیوٹ، ناروول اور وہاڑی سے جوڈیشل افسران، ممبران پنجاب بار کونسل، ڈسٹرکٹ پولیس افسران، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز، بارایسوسی ایشنوں کے نمائندے، جیل سپرنٹنڈنٹس اور فوجداری وکلاء بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ ان کے والد جب وکالت کی پریکٹس کرتے تھے تو اس دور میں کسی بھی فوجداری مقدمے کا تین دن میں فیصلہ ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی 38 سالہ پریکٹس میں دیکھا ہے کہ موجود قوانین کی موجودگی میں بھی فوجداری مقدمات کا جلد فیصلہ ممکن ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں قوانین نہیں طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے ۔

فاضل جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کے ساتھ ایک ملاقات میں متذکرہ پراجیکٹ سے متعلق اپنا آئیڈیا شیئر کیا تھا جسے سید منصور علی شاہ نے قابل عمل قرار دیا اور اس کی تشکیل کے ہر مرحلہ سے متعلق مجھے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آ ج انکے لئے باعث مسرت ہے کہ ان کا آئیڈیا شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ہمارا مقصد جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، مقدمات میں تاخیر مسائل کاسبب بنتی ہے، انہوںنے کہا کہ پوری دنیا میں مسلسل ٹرائل کا نظام موجود ہے، کسی بھی مقدمہ کو مخصوص ٹائم فریم میں نمٹا دیا جاتا ہے، ہمیں بھی اپنے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

فاضل جج نے کہا کہ بطور لاہور ہائی کورٹ جج پہلے دن انکی عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوا لیکن انہوںنے فائلز دیکھ کر میرٹ پر فیصلہ کر دیا، اس دن سے اب تک کبھی کوئی وکیل انکی عدالت سے غیر ضروری غیر حاضر نہیں ہوا اور نہ ہی کسی مقدمہ کا غیر ضروری ملتوی کیا گیا ، انہوںنے کہا کہ مقدمہ صرف اسی صورت میں ملتوی ہو سکتا ہے کہ یا تو وکیل اللہ کو پیارا ہو جائے یا جج فوت ہوجائے، اس کے علاوہ مقدمات کو غیر ضروری التواء میں ڈالنا انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔

فاضل جج نے کہا کہ متذکرہ پراجیکٹ کے تحت وکلاء کی دستیابی کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے جدید ترین طریقہ کار اپنانا ہوگا، وکلاء کو مخصوص نمبر کے تحت آئی ڈی کارڈ ایشو کئے جا سکتے ہیں جن کا نمبر ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ تک یکساں ہو اور اسی نمبر کے مطابق کازلسٹیں جاری ہوں تا کہ وکلاء کی دستیابی کے مطابق تاریخیں دی جائیں۔

فاضل جج نے کہا کہ کریمینل جسٹس کے حوالے سے پائلٹ پراجیکٹ بنیادی طور پر چار اضلاع میں شروع کیاجا رہے جن میں اٹک، چنیوٹ، نارروال اور وہاڑی شامل ہیں، انہوںنے کہا کہ ضلعی پولیس، جیل پولیس، پراسیکیوشن اور جوڈیشل افسران سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس پراجیکٹ کے تحت مثالی انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔

پولیس کی جانب سے تفتیش سے لیکر چالان پیش کرنے تک کا عمل شفاف انداز میں مقررہ وقت میں مکمل ہونا چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آرز میں نامزد ملزمان میں کچھ غیر ضروری افراد کے نام بھی شامل کر دیئے جاتے ہیں جس میں اکثر اوقات مدعی پارٹی کی بد نیتی شامل ہوتی ہے، انہوںنے کہا کہ پولیس تفتیشی ٹیم کو چاہیے کہ جب تک وہ ایف آئی آر کے متن اور تفتیش سے مطمئن نہ ہوں وہ غیر ضروری گرفتاریاں عمل میں نہ لائیں، غیر ضروری گرفتاریاں اور پھر ضمانتیں عدالتوں پر بوجھ بنتی ہیں، ڈسٹرکٹ پولیس افسران اس میں خصوصی دلچسپی ہیں اور اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابل برداشت ہوگی۔

فاضل جسٹس نے کہا کہ پراسیکیوشن بھی اپنا کردار ادا کرے ، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز چودہ یا سترہ دنوں میں عدالتوں میں چالان اور شہادتوں کے حوالے سے عدالتوں کی مکمل معاونت کریں ۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ پائلٹ پراجیکٹ کے تحت جوڈیشل افسران کو انصاف کی مثال قائم کرنا ہوگی، اگر ججز وقت کے پابند ہوں گے تو وکلاء بھی پابندی کریں گے، کیس کی نوعیت کے حوالے سے کیس کی تاریخ دی جائے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ تمام مقدمات ملتوی کر دیئے جائیں۔

فاضل جج نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے کہا کہ وہ ذاتی حیثیت میں اس پراجیکٹ کی نگرانی کریں۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ میں شامل چار اضلاع پورے پنجاب کیلئے مثالی بن سکتے ہیں، انہوںنے کہا کہ یکدم پورے پنجاب کی بجائے صرف پائلٹ پراجیکٹ پر کام شروع کیا گیا، ان اضلاع میں نارکوٹکس اور مرڈر ٹرائل کے مقدمات باقی مقدمات کی نسبت زیادہ ہیں۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پائلٹ پراجیکٹ میں شامل اضلاع میں فی جج پچاس ٹرائلز بنتے ہیں، انہوںنے کہا کہ سول اور فوجداری عدالتوں کو علیحدہ علیحدہ کرکے قابل عمل کاز لسٹ جاری کرنے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس MIT کو موصول ہوگی جو روایتی پیٹرن سے ہٹ کر ہوگی، اس کیلئے ایک سافٹ ویئر ڈائزائن کیا جا رہا ہے اور اسی کے مطابق رپورٹس آن لائن ممبر انسپکشن ٹیم کو موصول ہوں گی۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء دستیابی کے مطابق ہائی کورٹ میں چاروں اضلاع کے مقدمات کی سماعت کیلئے خصوصی بنچز تشکیل دیئے جائیں گے، ان کا کہنا تھاکہ کیس مینجمنٹ پلان سے استفادہ کئے بغیر پراجیکٹ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء کیلئے بھی اسی نظام میں آسانی ہوگی، بارز کی خواہش بھی ہے کہ پرانا کلچر تبدیل کر کے ان چار اضلاع کو مثالی بنایا جائے، ہڑتال کلچر کو ختم کر کے عدالتوں کو فنکشنل بنائیں ، اگر کبھی احتجاج ناگزیر ہوتو عدالتی اوقات کار کے بعد کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ معیاری انصاف کی بروقت فراہمی بار اور بنچ کا مشترکہ مقصد ہے۔

انہوںنے کہا کہ عدالت عالیہ لاہور کی جانب سے انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے کہ 72 سول ججزکی پوسٹوں کو اپ گریڈ کر کے سینئر سول ججزبنایا گیا ہے، تین سینئر سول ججز کو ہر ضلاع میں پوسٹ کیا جائے گا، ایک سینئر سول جج جوڈیشل ورک کرے گا، ایک ایڈمن جج ہوگا جبکہ تیسرا سینئر سول جج بطور گارڈین جج کام کرے گا۔ انتظامی سینئر سول جج فوکل پرسن نامزد کیا جائے گا جو پولیس اور دیگر اسٹیک ہولڈرزکے نامزد کردہ فوکل پرسنز کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔

فاضل چیف جسٹس نے ہم جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوںنے پائلٹ کریمینل جسٹس پراجیکٹ جیسے اہم قدم میں ہماری رہنمائی فرمائی ۔ قبل ازیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اٹک سہیل ناصر نے پائلٹ پراجیکٹ کے اغراض و مقاصد اور افادیت سے متعلق شرکاء کو آگاہ کیا۔