توحید کی طرح عقیدہ قیامت بھی ضروری ہے ، ملاوٹ کرنے والے قومی خیانت کار ہیں، آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

اسلام میں حقوق انسانی کی بے حد اہمیت ہے، حیوان کی حق تلفی یا ظلم کا بھی حساب ہو گا، رات کو جانوروں کا شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے، علی مسجد میں خطبہ جمعہ

جمعہ 20 جنوری 2017 20:58

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 جنوری2017ء) وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ عقیدہ توحید کی طرح قیامت کا اعتقاد بھی ضروری ہے جس میں ہر صورت میںغلط کاموں کی سزا ملے گی۔آیات قرآنی کے مطابق ظالموں کا عذاب ختم نہیں ہوگا جب ایک چمڑا جل جائے گا تو نیا چمڑا نئے عذاب کے لئے پیداہوگا۔

اسلام میں حقوق انسانی کی بے حد اہمیت ہے۔اللہ اپنے حق تو معاف کر دے گا لیکن کسی انسان پر کئے ظلم وزیادتی کو ہرگز معاف نہیں کرے گاحتیٰ کہ حیوان کی حق تلفی یا ظلم کا بھی حساب ہو گا۔ جانوروں کے شکار کے بھی قوانین ہیں ۔رات کا وقت اللہ نے تمام مخلوقات کے لئے آرام واستراحت کے لئے قرار دیا ہے لہٰذا رات کو جانوروں کا شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

انسان تو ہر لحاظ سے اشرف المخلوقات ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں پیغمبر اکرم ؐ اور ان کے جانشینوں نے کبھی رات کو کسی پر حملہ کیا نہ شب خون مارا۔سابقہ امتوںکے بدترین جرائم کے باوجود خدا نے ان پر کبھی رات کو عذاب نازل نہیں کیا۔ملاوٹ کرنے والے قومی خیانت کے مرتکب ہیںکیونکہ کہ ان غذائوں سے تیار ہونے والی نسل صحت مند ہوگی نہ ان کے رویے صحیح و سالم ہونگے ۔

علی مسجد حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظر ماڈل ٹائون میں خطبہ جمعہ میںراہ ہدایت و ضلالت کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ریاض نجفی نے کہاقرآن مجید میں سورہء مبارکہ فاتحہ میںسعادت و ہلاکت کے راستوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اھدناالصراط المستقیم،صراط الذین انعمت علیہم یعنی سیدھا راستہ ہی نجات کا راستہ ہے۔اگلی آیت میںگمراہ اور غلط کار لوگوں کے راستے سے بچنے کا ذکر ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ کئی راستوں کی طرف مت جائیں ورنہ سیدھے راستے سے بھٹک جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر چلنے سے قبر بھی جنت بن جاتی ہے،پل صراط سے آسانی سے گزر کر سیدھے جنت جائیں گے جبکہ غلط راستے پر چلنے والے جو فتنہ،فساد،چوری،قتل و غارت اور دیگر برائیاں کرتے ہیں انہیں اصل سزاتو آخرت میں ملے گی لیکن بعض اوقات دنیامیں بھی سزا مل جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قیامت کا اعتقاد بھی عقیدہ توحید کی طرح ضروری ہے جس میں ہر صورت میںغلط کاموں کی سزا ملے گی۔ارشاد خداوندی ہی: ظالم اللہ کوغافل نہ سمجھیں ہم ان کی سزا کوقیامت کے دن تک مئوخر کر رہے ہیں۔آیات کے مطابق ظالموں کا عذاب ختم نہیں ہوگا جب ایک چمڑا جل جائے گا تو نیا چمڑا نئے عذاب کے لئے پیداہوگا۔آیت اللہ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ اسلام میں حقوق انسانی کی بے حد اہمیت ہے۔

اللہ اپنے حق تو معاف کر دے گا لیکن کسی انسان پر کئے ظلم وزیادتی کو ہرگز معاف نہیں کرے گاحتیٰ کہ حیوان کی حق تلفی یا ظلم کا بھی حساب ہو گا۔انہوں نے کہا کہ دوسرے کا حق کھانے کے شدید حساب کے بارے وہ تاریخی واقعہ باعث عبرت ہے جو حضرت سلمان فارسی کو پیش آیا جب امیر المومنین علی علیہ السلام نے انہیں مدائن(بغداد)کا گورنر مقرر فرمایا تو انہوں نے اپنے وقت موت کی علامت پوچھی۔

امیرالمومنین علی ؑ نے فرمایا: دو علامات ہیں ایک یہ کہ آپ کو دودھ ہضم نہ ہو گا اور دوسرے مردہ تجھ سے بات کرے گا۔چنانچہ ایک دن جب انہیں دودھ ہضم نہ ہوا توسمجھ گئے ایک علامت ظاہر ہو گئی دوسری کے لئے قبرستان گئے۔ ایک قبر پہ سلام کیا اور حال پوچھا مردہ نے کہا کل آنا پھر جواب دوں گا۔اگلے دن پھر گئے تو اس مردے نے بتایا کہ بہت اچھی حالت میں ہوں۔

ہر نعمت موجود ہے لیکن زندگی میں ایک غلط کام کیا جس کی سزا ہر دوسرے دن ملتی ہے۔ایک دفعہ قصاب سے گوشت خریدا تو اس کی اجازت کے بغیر ایک بوٹی تبدیل کرلی،وہی بوٹی سانپ بن کر ہر دوسرے دن مجھے ڈستی ہے جس کی وجہ سے تڑپتا رہتا ہوں۔کل جب آپ آئے تو اسی تکلیف میں مبتلا تھا۔آپ اس قصائی کے پاس جائیں اور اسے راضی کریں۔انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں واضح کیا گیا ہے کہ قیامت میںجانور بھی اٹھائے جائیں گے اور انسان سے ان کے حقوق کے بارے پوچھا جائے گا کہ ان پر کسی قسم کا ظلم تو نہیں کیا۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ زمین پر چلنے والے جانور اور اڑنے والے پرندے بھی تمہاری طرح ایک امت ہیں۔ سب اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے جائیں گے ۔امام جمعہ علی مسجد نے واضح کیا کہ جانوروں کے شکار کے بھی قوانین ہیں ۔رات کا وقت اللہ نے تمام مخلوقات کے لئے آرام واستراحت کے لئے قرار دیا ہے لہٰذا رات کو جانوروں کا شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

انسان تو ہر لحاظ سے اشرف المخلوقات ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں پیغمبر اکرم ؐ اور ان کے جانشینوں نے کبھی رات کو کسی پر حملہ کیا نہ شب خون مارا۔سابقہ امتوںکے بدترین جرائم کے باوجود خدا نے ان پر کبھی رات کو عذاب نازل نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ شکار کے قواعد و ضوابط کے بارے اس تاریخی واقعہ میں بہت نشانیاں ہیں کہ مامون الرشید نے امام محمد تقی علیہ السلام کے بچپن کے عالم میں ان کی علمی حیثیت جاننے کے لئے معروف عالم یحیٰ بن اکثم سے ان کا مناظرہ کرایا ۔

یحیٰ نے یہ سوال کیا کہ کوئی اگر حالت احرام میں شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے اس پر امام ؑ نے اپنی کمسنی کے باوجود اس کے سوال کی وضاحت چاہی کہ یہ بتائو شکار کرنے والا حرم میں تھا یا حرم کے باہر تھا ۔ اس نے حج کا احرام پہنا ہوا تھا یا عمرہ کا ۔ اس نے پہلی بار شکار کیا یا پہلے بھی کر چکا تھا ۔شکار کرنے والا مرد تھا یا عورت ۔اس نے مذکر کا شکار کیا یا مونث کا۔

شکار دن کو کیا یا رات کو یحیٰ بن اکثم یہ سوالات سن کر متحیر ہو گیا اور کمسنی کے باوجود امام ؑ کی علمی عظمت کا اعتراف کیا۔ہمارے لئے اس واقعہ میں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جانوروں کے شکار کے بھی قواعد و ضوابط ہیں ۔شکار کے ضمن میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ غذا حاصل کرنے کے لئے جانور یا پرندوں کا شکار کیا جائے نہ کہ محض شوق اور شغل کے لئے ۔چھوٹی چڑیوں کو بھی بغیر غذا کے مقصدکے مارنے یا شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کا ذاتی مال نہیں بلکہ اللہ کی امانت ہے اور اسے ضائع کرنا جائز نہیں ۔ اناج کا سمندر میں ضائع کرنا اسی طرح ناجائز ہے جیسے ذخیرہ کرکے روکے رکھناجبکہ مخلوق کو اس کی ضرورت ہو ۔ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ اسلامی احکامات کے مطابق ملاوٹ کی بھی حددرجہ مذمت ہے ۔ مشہور حدیث ہے کہ من غش فلیس منا ۔ ملاوٹ کرنے والوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ۔ آج کل بھی حکومت نے ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف مہم چلا رکھی ہے لیکن واضح اور صاف طور پر نہیں بتایا جاتا کہ کون کون سے دودھ یا دیگر غذائی مواد ملاوٹ شدہ ہیں ۔ملاوٹ کرنے والے قومی خیانت کے مرتکب ہیںکیونکہ کہ ان غذائوں سے تیار ہونے والی نسل صحت مند ہوگی نہ ان کے رویے صحیح و سالم ہونگے ۔

متعلقہ عنوان :