سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا وزیراعظم محمد نواز شریف کے خلاف اپوزیشن کی تحریک استحقاق مسترد کرنے کا عندیہ

عدالت میں زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے امور پر کمیٹی قائم نہیں کی جا سکتی اور ریمارکس دیئے جا سکتے ہیں، تفصیلی غور کے بعد فیصلہ کروں گا کہ یہ تحریک استحقاق ابھی ختم کر دوں یا ایوان میں ختم کروں ایس ایم ای بینک یا کراچی میں میرا کوئی اکائونٹ نہیں،میں نے ہمیشہ غیر جانبداری سے کام لیا،ملٹری کورٹس کے حوالے سے دو اجلاسوں میں تفصیلی بات ہوئی ہے، قومی مفادات کے معاملات پر سب کو پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے سردار ایاز صادق کی اپنے چیمبر میں سینئر صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 20 جنوری 2017 17:26

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جنوری2017ء) سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وزیراعظم محمد نواز شریف کے خلاف موصول ہونے والی اپوزیشن کی تحریک استحقاق مسترد کرنے کا عندیہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت میں زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے امور پر کمیٹی قائم کی جا سکتی ہے نہ اس حوالے سے ریمارکس دیئے جا سکتے ہیں، ابھی ابتدائی سٹڈی کی ہے، تفصیلی غور کے بعد فیصلہ کروں گا کہ یہ تحریک استحقاق ابھی ختم کر دوں یا ایوان میں ختم کروں۔

بیان کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ درست ہے یا نہیں۔ جمعہ کو اپنے چیمبر میں سینئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے آنے والی تحریک استحقاق میں نے پڑھی ہے۔ اگر اس پر کوئی ایکشن لیا جاتا ہے یا اسے کسی کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے تو یہ میرے لئے مناسب نہیں ہے کیونکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس کا فیصلہ عدلیہ نے کرنا ہے۔

(جاری ہے)

میرا کام نہیں ہے کہ میں وہاں سے شہادتیں منگوائوں، پہلے بھی یہی روایت رہی ہے کہ عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے ایوان میں کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے قواعد پورے ایوان کی کمیٹی کے اجلاس کی اجازت نہیں دیتے۔ عمران خان کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف جو ریفرنس آیا اس میں بنی گالا، ان کے اثاثہ جات اور آف شور کمپنیوں سمیت دیگر امور کا ذکر تھا جو ہم نے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا ہے۔

آئین اور قانون کے تحت اس کا فیصلہ 90 دن کے اندر ہونا چاہئے، یہ پتہ نہیں کہ الیکشن کمیشن کے مسائل کیا ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایس ایم ای بینک یا کراچی میں میرا کوئی اکائونٹ نہیں ہے۔ جعلی کارروائی ہے، رقم جمع نہیں ہوئی، ایف آئی اے کو یہ کیس بھجوانے کا کہا تھا اور گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی فون کیا کہ آپ ریگولیٹر ہیں، اگر اسٹیٹ بینک اپنا کام نہیں کر سکتا تو اس کو بھی پارٹی بنایا جا سکتا ہے۔

اعتزاز احسن سمیت جن دیگر لوگوں کو رسیدیں ملی ہیں کسی کے بھی اکائونٹ نہیں ہیں۔ میں لندن میں تھا جب کوریئر کے ذریعے یہ رسیدیں یہاں بھجوائی گئیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندے اس لئے ایوان میں آتے ہیں تاکہ وہ اپنے عوام کے مسائل یہاں اجاگر کریں۔ اس کی انہیں تنخواہ بھی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی اس طرح متاثر ہوتی رہی تو قومی معاملات التواء کا شکار ہوں گے، یہ قوم کا نقصان ہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک طیارہ حادثہ کیس زیر بحث نہیں آ سکا۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر ایوان میں اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا اور صوبوں کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت نوزائیدہ اور اس کی عمر 30 سے 35 سال ہے۔ کمیٹیاں موثر انداز میں کام کر رہی ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا کردار آپ کے سامنے ہے، بتدریج بہتری آ رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے حوالے سے دو اجلاسوں میں تفصیلی بات ہوئی ہے۔

بعض نئے سوال سامنے آئے ہیں تاہم یہ اہم اور قومی ایشو ہے۔ اجلاس میں ہر جماعت کی خواہش تھی، قومی مفادات کے معاملات پر سب کو پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے۔ اجلاس میں خورشید شاہ نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کیمرہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہونا چاہئے۔ حکومت اور اپوزیشن باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کر سکتی ہے۔

سپیکر کے غیر جانبدارانہ کردار کے حوالے سے سپیکر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے ہمیشہ غیر جانبداری سے کام لیا۔ دونوں طرف سے رائے لے کر فیصلہ کرتا ہوں۔ حکومت اور اپوزیشن نے اگر کسی معاملہ پر بات کرنی ہے تو مل بیٹھ کر اتفاق رائے کیا جا سکتا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے حوالے سے بھی بات ہوئی ہے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرا کام نہیں کہ پارٹیوں کو ڈکٹیٹ کروں۔ یہ میرے لئے مناسب نہیں ہے جو لوگ ایوان میں آتے ہیں ان کو سہولت فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔