عالمی بنک پاک بھا رت میں پانی تنازعہ کے حل بارے ذمہ داری پوری کرے، قائمہ کمیٹی امور خارجہ اور پانی و بجلی

مزید کسی تاخیر کے کشن گنگا ڈیم اور رتلے ڈیم کے حوالے سے تنازعہ کے حل کے لئے ثالثی عدالت تشکیل دے، جب تک مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکلتا تب تک بھارت کو رتلے ڈیم پر تعمیرات سے روکا جائے،قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ اور پانی و بجلی کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ قرارداد منظور سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بحث مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کی نئی لہر کے بعد بھارتی جارحانہ رویہ کا ایک جزو ہے،بھارت نے مغربی دریائوں پر پن بجلی کے منصوبے بنانے کی حکمت عملی بنائی ،سندھ طاس معاہدہ کی دونوں ممالک کو پاسداری کرنی چاہیے، پاک بھارت کی جنگ کی حالت میں بھی یہ معاہدہ چلتارہا ،اگر بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو پاکستان تمام آپشن استعمال کرنے کا حق رکھتاہے،بھارتی وزیراعظم معاملہ پر اسٹریٹجک کارڈ استعمال کر رہاہے،معاملہ پر پاکستان کا موقف اصولی اور قانونی ہے، بھارت کا رویہ معاہدہ کو نقصان پہنچا رہا ہے ،بھارت کو معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیںگے،پاکستان کیلئے زندگی کا مسئلہ ہے اورپاکستان پیچھے نہیں ہٹے گا، معاملہ پر ڈیڈلاک سے بھارت کو فائدہ حاصل ہوگا،بھارت کا مغربی دریائوں پر 45سی61پن بجلی کے منصوبے تعمیر کرنے کی حکمت عملی بنا نا قابل تشویش ہے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری،سیکرٹری پانی و بجلی یو نس ڈھاگہ اور احمربلال صوفی کی اجلاس کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ اور پانی و بجلی کو بریفنگ

جمعہ 20 جنوری 2017 17:15

اسلام آ باد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 جنوری2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ اور پانی و بجلی کے مشترکہ اجلاس نے متفقہ طور پر عالمی بنک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھا رت کے درمیان پانی کے تنازعہ کے حل کے حوالے سے اپنی ذمہ داری فوری طور پر پوری کرے اور مزید کسی تاخیر کے کشن گنگا ڈیم اور رتلے ڈیم کے حوالے سے تنازعہ کے حل کے لئے ثالثی کی عدالت تشکیل دے۔

جب تک مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکلتا بھارت کو رتلے ڈیم پر جاری تعمیرات سے روکا جائے،اجلاس کو آ گاہ کیا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے جوبحث چھڑ گئی ہے یہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوان لیڈربرہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی تحریک کی نئی لہر کے بعد بھارت کی جانب سے شروع کئے گئے جارحانہ رویہ کا ایک جزو ہے،بھارت نے مغربی دریائوں پر زیادہ سے زیادہ پن بجلی کے دریائوں کے بہائو پر منصوبے بنانے کی حکمت عملی بنائی ہے ،سندھ طاس معاہدہ کی دونوں ممالک کو اس کی پاسداری کرنی چاہیے، پاک بھارت کی جنگ کی حالت میں بھی یہ معاہدہ چلتارہا اور معاہدے نے مفید کردار ادا کیا،اگر بھارت معاہدے کی خلاف ورزی کی تو پاکستان اپنے تمام آپشن استعمال کرنے کا حق رکھتاہے،بھارتی وزیراعظم مودی معاملہ پر اسٹریٹجک کارڈ استعمال کر رہاہے،معاملہ پر پاکستان کا موقف اصولی اور قانونی ہے اور یہ معاہدے کو تحفظ دے رہا ہے جبکہ بھارت کا رویہ معاہدہ کو نقصان دے رہا ہے،عالمی بنک سے معاملہ پر مثبت کردار کی توقع ہے،بھارت کو معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیںگے،پاکستان کیلئے زندگی کا مسئلہ ہے اورپاکستان پیچھے نہیں ہٹے گا، معاملہ پر ڈیڈلاک سے بھارت کو فائدہ حاصل ہوگا،بھارت نے مغربی دریائوں پر 45سی61پن بجلی کے منصوبے تعمیر کرنے کی حکمت عملی بنائی ہے جو قابل تشویش ہے، سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریائوں پر پاکستان کے حقوق غیر محدود ہیں،معاہدے پر 57سال سے کامیابی سے عملدرآمد جاری ہے،بھارت معاملے کو طول دینے کی کوشش کررہا ہے،یامربھاشاڈیم پر اپنے وسائل سے کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،اب عالمی فنانسنگ کا انتظار نہیں کر رہے تاکہ وقت ضائع نہ ہو،سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کے مودی کے بیان کو اقوام متحدہ میں لایا جاسکتا ہے،کستان کو معاہدے کے تحت حا صل مواقعوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانا چاہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری،سیکرٹری پانی و بجلی یو نس ڈھاگہ اور معروف قانون دان احمربلال صوفی نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہو ئے کیا۔جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امورخارجہ اور پانی و بجلی کا مشترکہ اجلاس محمد ارشدخان لغاری اور اویس خان لغاری کی صدارت میں ہوا،اجلاس میں سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کی جانب سے دی جانی والی دھمکیوں اور خطرات اور ان پر پاکستان کے لائحہ عمل کے حوالے سے غور کیا گیا،سیکرٹری پانی وبجلی محمد یونس داغا نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریائوں پر پاکستان کے حقوق غیر محدود ہیں،پاکستان کے دریائوں کے زیریں علاقے (لوئر ریپئرین)ہونے کی وجہ سے حقوق بھی ہیں اور بعض ذمہ داریاں بھی ہیں ابھی تک اس حوالے سے مکمل طور پر پاکستان نے ذمہ داریاں مکمل طور پر ادا نہیں کی ہیں،معاہدے پر 57سال سے کامیابی سے عملدرآمد جاری ہے،مغربی دریائوں پر بھارت کو کچھ محدود حقوق حاصل ہیں،مغربی دریائوں پر بھارت کو دریا کے بہائو پر(رن آف ریور)پن بجلی کے منصوبے لگانے اور کم سے کم اسٹوریج کے ساتھ منصوبے لگانے کا اختیار ہے،بھارت کے ساتھ کشن گنگا ڈیم کے بعض زیرالتوا معاملات اور رتلے ڈیم ثالثی کی عدالت بنانے کیلئے عالمی بنک کو درخواست کی ہے،بھارت معاملے کو طول دینے کی کوشش کررہا ہے،بھارت نے رتلے ڈیم پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے،عالمی بینک کی جانب سے ثالثی کی عدالت کیلئے چیئرمین اور پینل بنانے کے حوالے سے انتظار کر رہے ہیں،پاکستان میںپانی کے حوالے سے ایکسپرٹ کررہے ہیں،مستقبل میں پانی کے حوالے سے چیلنجز بڑھ سکتے ہیں،دیامربھاشاڈیم پر اپنے وسائل سے کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،اب عالمی فنانسنگ کا انتظار نہیں کر رہے تاکہ وقت ضائع نہ ہو۔

سیکرٹری وزارت پانی و بجلی یونس ڈھاگہ نے کہاکہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے بھارت کے ساتھ باہمی مزاکرات ہوئے لیکن ہم نے وقت ضائع نہیں کیا ۔ماضی میں کشن گنگا ڈیم سمیت ہم نے سستی دکھائی۔سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے جوبحث چھڑ گئی ہے یہ بھارت کی جانب سے شروع کئے گئے جارہانہ رویہ کا ایک جزو ہے،مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوان لیڈربرہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی تحریک کی جو نئی لہر اٹھی اس کے بعد بھارت کے وزیراعظم نے حکمت عملی کے تحت سندھ طاس معاہدے،گلگت بلتستان اور دیگر مسائل اٹھانے شروع کئے۔

بھارت میں بھی بحث ہوئی کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو یہ اس کیلئے نقصان دہ ہوگی،اس کے بعد بھارت نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائی اور مغربی دریائوں پر زیادہ سے زیادہ پن بجلی کے دریائوں کے بہائر پر منصوبے بنانے کی حکمت عملی بنائی،سندھ طاس معاہدہ انتہائی اہم معاہدہ ہے،معاہدے کو چلتے رہنا چاہیے،دونوں ممالک کو اس کی پاسداری کرنی چاہیے،معاہدے کے تحت رن آف ریور پر پن بجلی کے منصوبوں کی تعمیر میں قواعد کی خلاف ورزی پر اعتراض کیا جاتاہے،معاہدے میں اس کاحل موجودہے،جنگ کی حالت میں بھی یہ معاہدہ چلتارہا اور معاہدے نے مفید کردار ادا کیا،اگر بھارت معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پاکستان اپنے تمام آپشن استعمال کرنے کا حق رکھتاہے،کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے ثالثی کی عدالت سے پاکستان کو ریلیف ملاتھا،پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تنازعہ صرف پانی کا مسئلہ ہی نہیں اس کی حیثیت تکنیکی،قانونی اور سیاسی ہے،بھارتی وزیراعظم مودی معاملہ پر اسٹریٹجک کارڈ استعمال کر رہاہے،پاکستان کو تمام پہلو پر نظررکھنا ہوگی،پاکستان کے پاس اس حوالے سے ایکسپرٹ ہونا چاہیے،پارنی کا مسئلہ سب کیلئے سانجھا ہے اور حکومت نے معاملہ کو سنجیدگی سے لیا ہے،معاہدے کے تحت عالمی بنک کا کردار سہولت کار کا ہے،پاکستان معاملہ پر ثالثی چاہتاہے جبکہ بھارت نیوٹرل ایکسپرٹ کے ذریعے معاملہ کا حل چاہتاہے،پاکستان نے عالمی بنک کو پہلے درخواست دی جبکہ بھارت نے اس کے ڈیڑھ ماہ بعد نیوٹرل ایکسپرٹ کیلئے درخواست دی،معاملہ پر پاکستان کا موقف اصولی اور قانونی ہے،پاکستان کا موقف جائزہ ہے اور یہ معاہدے کو تحفظ دے رہا ہے جبکہ بھارت کا رویہ معاہدہ کو نقصان دے رہا ہے،عالمی بنک سے معاملہ پر مثبت کردار کی توقع ہے،معاہدے پر دہائیوں سے عملدرآمد جاری ہے،بھارت کو معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیںگے،پاکستان کیلئے زندگی کا مسئلہ ہے اور اس کی حفاظت کی جائے گی،پاکستان معاملہ کا جلد حل چاہتاہے،ڈیڈلاک سے بھارت کو فائدہ حاصل ہوگا،عالمی بنک کو ثالثی کی عدالت بنانے کے حوالے سے عمل میں وقفہ کے ساتھ رتلے ڈیم کی تعمیر بھی رکوائے اور جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا بھارت کورتلے ڈیم کی تعمیر سے روکا جائے،بھارت نے مغربی دریائوں پر 45سی61پن بجلی کے منصوبے تعمیر کرنے کی حکمت عملی بنائی ہے جس پر تشویش ہے،معاملہ کے حوالے سے پاکستان کی تمام پارٹیاںیکسوہیں،بھارت کو معاملہ پر طول دینے کی اجازت نہیں دینا چاہیے،اس معاہدے پر مخصوص نقطہ نظر میڈیا میں پھیلانے کیلئے سپانسرڈ آرٹیکلز اختیارات میں لکھوائے جارہے ہیں۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ماہرین کے مطابق آئندہ لڑائیاں پانی کے معاملہ پر کیوں کی،سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے غلطیاں ہوگئی ہیں،معاہدے کے تحت تین دریا بھارت کو دے دیئے گئے جبکہ مغربی دریائوں پر بھی بھارت کو حقوق دیئے گئے،عالمی سطح پر بھی پاکستان اس حوالے سے بہت مشکل میں ہے،اس معاملہ پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلاکر بحث کرائی جائے،افغانستان سے آنے والے دریائوں کے حوالے سے بھی کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔

معروف قانون دان اور احمر بلال نے کہاکہ میں جب سندھ طاس معاہدہ ہوا اس وقت بین الاقوامی پانی کے قوانین مختلف تھے۔اس قسم کی صورتحال کا سامنا صرف پاکستان کو نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کو ہے۔اگر انجنیئر سے پوچھیں تو بھارت جب تک ڈیم کا پانی چھوڑتا رہے خلاف ورزی نہیں۔اگر سیکیوریٹی ماہرین سے پوچھیں تو ان کا کہنا ہے کہ ان ڈیمز کی مدد سے بھارت فیصلہ کن پوزیشن میں آجائے گا۔

اگر ڈیم پر اعتراض کرنا ہے تو ٹریٹی کے علاوہ بھی دیکھنا ہوگا۔سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کے مودی کے بیان کو اقوام متحدہ میں لایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس معاہدہ سے پاکستان میں زندگیوں کو خطرہ ہے۔اس معاہدہ کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔اگر یک طرفہ ختم کیا گیا تو یہ دھوکہ دہی کے مترادف ہوگا۔ پاکستان کو پیرس کنونشن کے تحت بھی نئے ڈیم بنانے ہیں۔

نئے ڈیم نہ بننے سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ قائمہ کمیٹی خارجہ لوک سبھا، ہیومن رائٹس کونسل اور ورلڈ بینک کو خط لکھے۔معاہدے کو بحال رہنا چاہے اور پاکستان کو معاہدے کے تحت حا صل مواقعوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانا چاہے۔شیریں مزاری نے سیکر ٹری پانی و بجلی سے کہاکہ آپ نے تین دریا بھارت کو دے دیے غلط بیانی نہ کریں ۔

شاہ محمود قریشی قریشی نے کہاکہ پانی پر پاک بھارت تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کا مسئلہ اتنا بڑا ہو گا، کہ کشمیر کا مسئلہ بھول جائیں گے۔آنے والی دہائی میں پانی کشمیر سے بڑا مسلہ بن جائے گا۔ہم کشمیر کو چھوٹامسلہ لگے گا۔ اجلاس نے متفقہ طور قراداد منظور کی کہ عالمی بنک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھا رت کے درمیان تنازعہ کے حل کے حوالے سے اپنی ذمہ داری فوری طور پر پوری کرے اور مزید کسی تاخیر کے کشن گنگا ڈیم اور رتلے ڈیم کے حوالے سے تنازعہ کے حل کے لئے ثالثی کی عدالت تشکیل دے۔جب تک عالمی بنک ثالثی کی عدالت تشکیل دیتا اور مسئلہ کا کوئی حل نکلتا بھارت کو رتلے ڈیم پر جاری تعمیرات سے روکا جائے۔(خ م+وخ)