نئے این ایف سی ایوارڈ کا جلد اعلان اور صوبوں کو وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر نظرثانی کی جائے ،ْ اراکین سینٹ

سینٹ وفاق کو این ایف سی کی تشکیل کے لئے ایک خاص مدت تک مہلت دے ،ْ سینیٹر اعظم سواتی ،ْ سینیٹر محسن لغاری ،ْ سینیٹر سلیم مانڈوی والا ،ْ سینیٹر عثمان کاکڑ ،ْسینیٹر تاج حیدر کا کا مطالبہ � میں مردم شماری کے بعد صوبوں کی مشاورت سے نیا این ایف سی ایوارڈ لایا جائے گا ،ْانجینئر بلیغ الرحمن

جمعہ 20 جنوری 2017 15:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جنوری2017ء) اراکین سینٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کا جلد اعلان اور صوبوں کو وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر نظرثانی کی جائے ،ْ سینٹ وفاق کو این ایف سی کی تشکیل کے لئے ایک خاص مدت تک مہلت دے جبکہ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ 2017ء میں مردم شماری کے بعد صوبوں کی مشاورت سے نیا این ایف سی ایوارڈ لایا جائے گا۔

جمعہ کو سینٹ اجلاس کے دوران وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے تحریک پیش کی کہ قومی فنانس کمیشن ایوارڈ جنوری تا جون 2016ء پر عملدرآمد کے بارے میں دوسری ششماہی جائزہ رپورٹ جو ایوان میں پیش کی گئی تھی‘ پر سینٹ بحث کرے ،ْبحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں مردم و خانہ شماری نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات ہیں۔

(جاری ہے)

82 فیصد وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور آبادی کے صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں ‘ صرف تخمینے ہیں۔ خیبر پختونخوا دہشتگردی سے متاثرہ ہے‘ سیکیورٹی پر بہت وسائل خرچ ہو رہے ہیں۔ ہمارے صوبے کے لئے گرانٹ کم ہے۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ آئین کے تحت زیادہ سے زیادہ پانچ سال میں نئے فنانس کمیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ وفاق سے جب صوبوں کو رقم منتقل ہو جاتی ہے تو یہ مزید تقسیم نہیں ہوتی ۔

انہوں نے کہاکہ جس طرح وفاق صوبوں کو وسائل تقسیم کر رہا ہے اسی طرح صوبے بھی وسائل مختلف علاقوں کو تقسیم کریں۔ صوبے وفاق سے ملنے والے وسائل کو مزید تقسیم کریں، صوبے نے اپنے وسائل جنریٹ نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا نے ہدف سے منفی 42.14 فیصد کم ریونیو جنریٹ کیا۔ بلوچستان نے ہدف سے زیادہ یعنی 119 فیصد حاصل کیا اوراس ضمن میں بلوچستان حکومت کو شاباش دینی چاہیے۔

این ایف سی ایوارڈ کی پانچ سال کی میعاد ختم ہو چکی ہے، اس کی تشکیل نو کی جائے۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ 2010ء میں این ایف سی ایوارڈ ہوا تھا، وفاق کو صوبوں سے بیٹھ کر بات کرنی چاہیے کہ محاصل کو کیسے بہتر کیا جائے‘ این ایف سی کا اجلاس بلایا جائے ، اس ایوان کی طرف سے حکومت کو سفارش جانی چاہیے کہ نیا این ایف سی تشکیل دیا جائے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

اس سے قبل مردم شماری کی جائے‘ شفاف مردم شماری کے بعد وسائل کی تقسیم پسماندگی کی بنیاد پر کی جائے۔انہوں نے کہاکہ سب سے زیادہ پسماندگی بلوچستان میں ہے‘ ترقی یافتہ علاقوں کو زیادہ بجٹ دیا جاتا ہے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بلوچستان میں غربت زیادہ ہیں جبکہ صوبے کیلئے کم فنڈز دئیے جارہے ہیں ۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ اشیاء پر سیلز ٹیکس کا اختیارصوبوں کو دیا جائے‘ صوبے بہتر طریقے سے یہ جمع کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آئین میں ترمیم کرکے وسائل جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا فارمولا وضع کیا جائے۔ سینٹ وفاق کو این ایف سی کی تشکیل کے لئے ایک خاص مدت تک مہلت دے۔ این ایف سی ایوارڈ پر عملدرآمد کے بارے میں دوسری ششماہی جائزہ رپورٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا کہ اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ طے شدہ فارمولے کے تحت صوبوں میں وسائل تقسیم ہوں۔

این ایف سی ایوارڈ اتفاق رائے سے تشکیل پاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کو گزشتہ این ایف سی میں دہشتگردی کی وجہ سے اضافی حصہ دیا گیا ۔انہوں نے کہاکہ این ایف سی کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے ہیں اور اس میں صوبوں کے نمائندے ہوتے ہیں، نئے ایوارڈ کے لئے صوبوں کا اتفاق رائے ضروری ہے، 2017ء میں پورے ملک میں مردم شماری کرانا طے ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی فنانس کمیشن کی تجویز اچھی ہے لیکن یہ صوبوں کا اپنا اختیار ہے، سینٹ سے یہ تجویز جانا مثبت ہے، ہر صوبے میں کچھ پسماندہ علاقے ہیں، ان کو ان کا حصہ ملنا چاہیے لیکن یہ صوبوں نے دینا ہے۔

این ایف سی میں صوبوں کے شیئر کے فارمولا میں بہتری کی جاسکتی ہے لیکن یہ صوبوں کے اتفاق رائے سے ہوگا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ نیا این ایف سی تشکیل نہیں دیا گیا۔ موجودہ این ایف سی کی مدت 2015 سے 2020ء تک ہے۔انہوں نے کہاکہ وفاق کے ٹیکسوں میں بہت بہتری آئی ہے۔ وفاق سے صوبوں کو زیادہ حصہ مل رہا ہے۔بعد ازاں سینٹ کااجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیاگیا۔

متعلقہ عنوان :