جماعت اسلامی کے وکیل کی جانب سے ظفر علی شاہ کیس سے متعلق دلائل ،ْ عدالت عظمیٰ کا برہمی کا اظہار

آپ نے عدالت میں غلط بیانی کی ،ْ خود بتائیں کہ آپ پر آرٹیکل 62 یا 63لگائیں ،ْسپریم کورٹ ،ْوکیل نے دلائل واپس لے لئے وزیر اعظم نوازشریف نے استثنیٰ نہیں ،ْاستحقاق مانگا ہے ،ْکیس کو اتنی غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے ،ْ سپریم کورٹ مفروضوں پرہمیں کہاں گھیسٹ کر لیا جایا جارہا ہے ،ْ وزیراعظم کی تقریر کا وہ حصہ دکھائیں جس میں انہوں نے پاناما کا اعتراف کیا ہو ،ْمفادات کے ٹکرائو کا کوئی مواد یا شواہد ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئے ہیں ،ْججز کے ریمارکس کیا ایسا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ ہے جس کے تحت وزیراعظم کاروبار نہیں کرسکتے ،ْ عدالت عظمیٰ کا سوال ایسی کوئی پابندی نہیں ،ْجماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف کا جواب نواز شریف نے بطور رکن اسمبلی اور وزیراعظم اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی ،ْوہ نا اہل ہوگئے ہیں ،ْجماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل

جمعہ 20 جنوری 2017 13:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جنوری2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانا ما لیکس معاملہ پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دور ان جماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف کی جانب سے ظفر علی شاہ کیس سے متعلق دلائل دینے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے عدالت میں غلط بیانی کی اب آپ خود بتائیں کہ آپ پر آرٹیکل 62 یا 63لگائیں تاہم عدالت عظمیٰ کی تنبیہ کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل نے ظفر علی شاہ کیس سے متعلق دلائل واپس لے لیے جبکہ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف نے استثنیٰ نہیں ،ْاستحقاق مانگا ہے ،ْکیس کو اتنی غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے ،ْ مفروضوں پرہمیں کہاں گھیسٹ کر لیا جایا جارہا ہے ،ْ وزیراعظم کی تقریر کا وہ حصہ دکھائیں جس میں انہوں نے پاناما کا اعتراف کیا ہو ،ْمفادات کے ٹکرائو کا کوئی مواد یا شواہد ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئے ہیں۔

(جاری ہے)

جمعہ کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما پیپرز لیکس کیس کی تیرہویںسماعت کی ۔سماعت شروع ہوئی تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے بطور رکن اسمبلی اور وزیراعظم اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی ،ْ نوازشریف نے اپنے لندن کے اثاثے چھپائے اس لئے وہ نا اہل ہو گئے ہیں ،ْ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ فلیٹ 1993 سے 1996 میں خریدے گئے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ بات کہاں مانی گئی ،ْ ایسا ہوتا تو ہم کیس کیوں سن رہے ہیں جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اپنی تقریر میں نواز شریف نے حکومتی پالیسی بیان نہیں کی بلکہ بطور ایم این اے ذاتی الزامات کا جواب دیا ،ْجماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نے کہاتھایہ وہ وسائل ہیں جن سے لندن میں فلیٹس خریدے گئے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ یہاں پردو سوالات ہیں ،ْسوال نمبرایک فلیٹس کب خریدے گئی دوسراسوال یہ ہے کہ فلیٹس کا وزیر اعظم سے کیا تعلق ہی خریداری کی حد تک اعتراف ضرور ہے ،ْمگر یہ نہیں ہے کہ جائیداد نواز شریف نے خریدی ہے۔توفیق آصف نے کہا کہ لندن فلیٹس کاتذکرہ ظفر علی شاہ کیس میں موجود ہے۔جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیاظفر علی شاہ کیس میں نواز شریف فریق تھی توفیق آصف نے جواب دیا کہ نوازشریف ظفر علی شاہ کیس میں فریق اول تھے ،ْایڈووکیٹ خالد انور نے اس وقت نواز شریف کی کیس کی پیروی کی تھی۔

اس پرمخدوم علی خان کاجواب آیا کہ ظفر علی شاہ کیس میں نواز شریف فریق نہیں تھے ،ْتوفیق آصف نے دلائل کے دوران ظفر علی شاہ کیس سے متعلق دلائل واپس لے لیے۔وکیل جماعت اسلامی نے کہا کہ نواز شریف نے 3تقاریر کیں ،ْاسمبلی میں تقریر شواہد کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے ،ْانہوں نے عدالت میں استثنیٰ مانگ لیاجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کیا ذاتی الزامات کا جواب دینے کیلئے اسمبلی فلور استعمال ہوسکتا ہی جسٹس گلزاراحمد نے توفیق آصف کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس کو اتنی غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔

نوازشریف نے آرٹیکل 66کے تحت استثنیٰ نہیں استحقاق مانگاہے۔ایک موقع پر عدالت نے سوال کیا کہ کیا ایسا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ ہے جس کے تحت وزیراعظم کاروبار نہیں کرسکتی جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہا کہ مفروضوں پرہمیں کہاں گھیسٹ کر لیا جایا جارہا ہے ہمیں وزیراعظم کی تقریر کا وہ حصہ دکھائیں جس میں انہوں نے پاناما کا اعتراف کیا ہو۔

جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ منی ٹریل اور ثبوت دینا شریف فیملی کی ذمہ داری ہے ایک موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے وکیل جماعت اسلامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالت میں غلط بیانی کی اب آپ خود بتائیں کہ آپ پر آرٹیکل 62 لگائیں یا 63۔ مفادات کے ٹکرائو کا کوئی مواد یا شواہد ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئے ہیں۔بعد ازاں سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی