حکومتی وکیل ڈوبتی کشتی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیںمگر وہ کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں ‘سراج الحق

پاکستان میں وزیراعظم کے خلاف عدالت بھی فیصلہ نہ کر سکے تو کیا وزیراعظم کا فیصلہ عرش پر کیا جائے گا،رانا ثناء اللہ حق نمک ادا کرنے کے لئے بیان دے رہے ہیںوہ سچ کہتے ہیںکہ عدالت سے حکومت کوخطرہ ہے ‘امیر جماعت اسلامی کی میڈیا سے گفتگو

جمعرات 19 جنوری 2017 17:49

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 جنوری2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومتی وکیل ڈوبتی کشتی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیںمگر وہ کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں ، حکمران عوام کے مفاد کی دفعات کو غیرموثر اوراپنے مفاد کی دفعات کو موثربنانا چاہتے ہیں،رانا ثناء اللہ حق نمک ادا کرنے کے لئے بیان دے رہے ہیںوہ سچ کہتے ہیںکہ عدالت سے حکومت کوخطرہ ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پانامہ لیکس کا مقدمہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا مسئلہ ہے اور سپریم کورٹ میں معزز ججوں کو اس مقدمے کی حساسیت کا اندازہ ہے۔

(جاری ہے)

ہمارا ایک ہی سوال حکومت سے ہے کہ یہ دولت شریف خاندان کے پاس کیسے آئی۔

پاکستان میں عوام کے حصے میں صرف غربت، بے روزگاری اور فاقہ کشی ہے اور ایک خاندان کے حصے میں دولت ہی دولت ہے۔ قانون کے مطابق اگر کسی خاندان کی مالی حیثیت ایک دم ہی تبدیل ہو جائے تو اس سے وضاحت لی جاتی ہے کہ یہ مال و دولت کہاں سے آیا ہے اگر وہ عدالت میں ثابت نہ کر سکے تو اس کو کالادھن تصور کیا جاتا ہے۔ پانامہ لیکس کی وجہ سے حکومت کی کشتی ڈوب رہی ہے۔

حکومتی وکیل کمزور پچ پر ڈوبتی کشتی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مخدوم علی شاہ کیلئے حکومتی کشتی بچانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ پارلیمان کے ممبران کے لئے استثنیٰ ضرور ہے مگر یہ استثنیٰ جھوٹ، خیانت اور غلط بیانی کے لئے نہیں ہے۔ آج نوازشریف کے وکیل انصاف کے بجائے استثنیٰ مانگ رہے ہیں ۔ اگر پاکستان میں وزیراعظم کے خلاف عدالت بھی فیصلہ نہ کر سکے تو کیا وزیراعظم کا فیصلہ عرش پر کیا جائے گا۔

اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آرٹیکل 62-63 کے مطابق فیصلہ کرے اور وزیراعظم کے کیس کو اس کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر حکومت صرف ان دفعات پر عمل چاہتی ہے کہ جس پر ان کو استثنیٰ حاصل ہے اور جہاں عوام کا مفاد ہے وہ ان کو غیرموثر دیکھنا چاہتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ عوام کے مفاد کی دفعات کو غیرموثر اور حکومتی مفاد کی دفعات کو موثر کر دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے فیصلے آنے کے بعد پاکستان میں کرپشن کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ یہ تصور بھی ختم ہو جائے گا کہ صرف غریب کو ہی سزا ملتی ہے اور امیر ہمیشہ قانون سے بچ جاتا ہے۔ سراج الحق نے اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ میرا پہلے دن بھی یہی موقف تھا کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہونا چاہئے اور اس کے لئے سب سے پہلے نوازشریف اور ان کے خاندان کا احتساب ہونا چاہئے۔

اس کے بعد وہ تمام لوگ جن کا پانامہ پیپرز میں نام آیا ہے یا جنہوں نے قرض معاف کرایا ہے یا جن کا تعلق ڈرگ مافیا سے ہے ان سب مافیاز کا احتساب ہونا چاہئے۔ ان مافیاز کی وجہ سے پاکستان میں غربت بے روزگاری اور فاقہ کشی ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ مجھے دکھ ہے کہ قانون بنانا پارلیمان کا کام تھا اگر پارلیمان کام نہ کرے تو عدالت کے علاوہ کہاں جایا جا سکتا ہے۔

یہ صرف پانامہ کا ہی فیصلہ نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کے لئے ایک روڈ میپ ہونا چاہئے جو پاکستانی معاشرے کو ان تمام معاشی و معاشرتی بیماریوں سے پاک کرے۔ ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کے بیان پر میں تبصرہ نہیں کرتا رانا ثناء اللہ حق نمک ادا کرنے کے لئے بیان دے رہے ہیں اور ان کی بات سچ ہے کہ ان کی حکومت کو پانامہ لیکس کے مقدمے کے فیصلے سے خطرہ ہے۔