پاناما کیس میں وزیراعظم کے وکیل نے دلائل مکمل کرلئے

مفروضوں پر کیسے ایسے فیصلے دیں جن کے دوررس اثرات ہوں، جسٹس اعجاز افضل ایک آئینی مقدمے میں رٹ آف کو وارنٹو میں وزیراعظم کو کیسے نااہل کیا جاسکتا ہی جسٹس گلزار احمد معاملہ رٹ آف کو وارنٹو سے بالاتر ہے ،ْ یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے ،ْجسٹس آصف سعید کھوسہ عدالت عظمیٰ 184/3کے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عوامی مفاد کے تحت کیس سن سکتی ہے ،ْمخدوم علی خان آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں ،ْ ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے ،ْعدالت عظمیٰ نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیدادوں کی تعریف تو ہے لیکن زیر کفالت کی نہیں ،ْجسٹس آصف سعید کھوسہ بے نامی کے حوالے سے عدالت کے متعدد فیصلے موجود ہیں ،ْوکیل وزیر اعظم کے دلائل مکمل زیر کفالت ہونے کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کرسکتے ہیں ،ْہماری تشویش زیر کفالت سے متعلق حقائق پر ہے، حقائق پیش کیے جائیں ،ْجسٹس گلزار احمد

جمعرات 19 جنوری 2017 16:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 جنوری2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کرلئے ہیں جماعت اسلامی کے وکیل (آج)دلائل شروع کرینگے جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمارے سامنے معاملہ الیکشن کا نہیں بلکہ نواز شریف کی بطور وزیراعظم اہلیت کا ہے ،ْوزیراعظم کے عہدے کو چیلنج کیا گیا ہے ،ْ دوسرے فریق کہتے ہیں نواز شریف اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے ،ْکیس میں پوری قوم متعلقہ ہے ،ْ فریق وزیر اعظم ہیں ،ْ ہمیں 20 کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا۔

جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نا اہلی بطور رکن اسمبلی ہو سکتی ہے، بحیثیت وزیراعظم نہیں۔

(جاری ہے)

انھوں نے محمود اختر نقوی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بھی ارکان اسمبلی کو نااہل کیا گیا تھا ،ْوزیراعظم کو نہیں۔

اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ 20 کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا، اس کیس میں پوری قوم متعلقہ ہے کیونکہ فریق وزیراعظم ہے۔انہوںنے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت الیکشن میں کامیابی کو چیلنج کرنے کی معیاد مختصر ہے اور معیاد ختم ہونے کے بعد آرٹیکل 184/3اور 199 کے تحت آئینی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے ،ْیہی وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔

سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران مفاد عامہ میں دائر کی جانے والی پٹیشن (رٹ آف کو وارنٹو) کا آپشن بھی زیر بحث آیا۔جسٹس گلزر احمد نے وکلاء سے معانت کیلئے کہا اور سوال اٹھایا کہ کہ کیا اس کیس کی کو وارنٹو کے تحت سماعت کی جاسکتی ہی انھوں نے استفسار کیا کہ ایک آئینی مقدمے میں رٹ آف کو وارنٹو میں وزیراعظم کو کیسے نااہل کیا جاسکتا ہی اور کیا آرٹیکل 183/3 کے مقدمے کو کو وارنٹو میں تبدیل کیا جاسکتا ہی جسٹس کھوسہ آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ یہاں پر معاملہ رٹ آف کو وارنٹو سے بالاتر ہے ،ْ یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے۔

جس پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت عظمیٰ 184/3کے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عوامی مفاد کے تحت کیس سن سکتی ہے۔انہوںنے کہاکہ پھر اس دائرہ اختیار کے تحت عدالت کو شفاف انصاف کی فراہمی کے حق کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ یہاں پر پاناما سنگاپور اور آف شور کمپنیوں کا معاملہ نہیں بلکہ قانونی نکتہ نااہلی کا ہے ،ْ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ غیر متنازع دستاویزات حاصل کی جائیں۔

انہوںنے کہاکہ جو دستاویزات ہم مانگ رہے ہیں وہ موزیک فونیسکا کی ہیں جو قانونی معاونت کا ادارہ ہے۔مخدوم علی خان نے کہاکہ حکومت پاکستان کی بیرون ملک کوئی ایسی سرمایہ کاری نہیں جو آف شور نہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ نیویارک روز ویلٹ ہوٹل وغیرہ ٹیکس سے بچاؤ کیلئے آف شور ہیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ یہ مثالیں دے کر اپنے موکل کے اقدامات کو درست ثابت کرنے کی کوشش کر ہے ہیں وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس چھپایا نہیں بچایا جاتا ہے۔

جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہوا آپ یہی کرتے رہے ہیں۔اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں ،ْ ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے۔سماعت کے آغاز پر مریم نواز کے نام خریدی گئی جائیداد کی تفصیلات ان کے وکیل شاہد حامد ایڈووکیٹ نے عدالت میں پیش کیں جن میں خریداری کی تاریخیں اور قانونی دستاویزات شامل تھیں۔

سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کیا زمین والد نے بیٹی کے نام خریدی تھی جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ والد نے بیٹی کے نام اراضی خریدی اور بعدازاں مریم نواز نے اراضی کی قیمت ادا کی تو زمین کا انتقال ہوا۔اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ زیر کفالت ہونے کی تعریف انکم ٹیکس قوانین میں ہے اور نہ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ میں، لہذا کیس کو مدنظر رکھ کر ہی زیر کفالت کی تعریف کوسمجھنا ہوگا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیدادوں کی تعریف تو ہے لیکن زیر کفالت کی نہیں۔جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ بے نامی کے حوالے سے عدالت کے متعدد فیصلے موجود ہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ عمومی طور پر والد زیر کفالت بچوں کو جائیداد خرید کر دیتے ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ زیر کفالت ہونے کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کرسکتے ہیں ،ْہماری تشویش زیر کفالت سے متعلق حقائق پر ہے، اس حوالے سے حقائق پیش کیے جائیں۔

مخدوم علی خان نے ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا کہ مریم نواز قطعی طور پر کسی کے زیر کفالت نہیں اور مالی طور پر خود مختار ہیں۔انھوں نے کہا کہ مریم نواز کے اثاثوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے برداشت کرتی ہیں اور اس ضمن میں مزید حقائق ان کے وکیل شاہد حامد پیش کریں گے۔ سماعت کے دور ان جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے کہ کیس میں عدالت کے سامنے فیصلہ تک پہنچنے کیلئے مواد کیا ہی مفروضوں پر کیسے ایسے فیصلے دیں جن کے دوررس اثرات ہوں۔

اگر سپریم کورٹ نااہلی کی سزا سنا دے تو نہ صرف پوری زندگی بلکہ قبر میں بھی اسی داغ کیساتھ جانا ہو گا۔وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ مقدمے کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے اعتراض نہیں اٹھارہے، صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 184تھری کے تحت عدالت کیا کرسکتی ہے اور کیا نہیں ،ْعدالت کو اختیار سماعت ہے لیکن اس کی بھی حد ہے ،ْ جو قانون میں متعین ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ نااہل قرار دینے کا معاملہ عوامی مفاد کے مقدمے میں سنا جا سکتا ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد کیس کی سماعت (آج) جمعہ 20 جنوری تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔جماعت اسلامی کے وکیل اپنے دلائل دیں گے۔