طالبان کے حوالے سے افغان حکومت کی سوچ مبہم ہے ،ْپاکستان

افغانستان اپنے ملک میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا بند کرے ،ْ سرتاج عزیز افغان حکومت کی طالبان سے بات کرنے کا طریقہ بہت ہی زیادہ منتشر ہے ،ْ مشیر خارجہ افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر طویل سرحد پر سیکیورٹی بڑھانے کیلئے پہلے کی کوششیں تیز کردیں

جمعرات 19 جنوری 2017 12:00

طالبان کے حوالے سے افغان حکومت کی سوچ مبہم ہے ،ْپاکستان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 جنوری2017ء) وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغانستان اپنے ملک میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا بند کرے اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے اپنی ’مبہم سوچ‘ پر نظر ثانی کرے۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ایک انٹرویو میں سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان میں یہ ابہام اور سیاسی عدم اتفاق موجود ہے کہ طالبان کو قومی سیاست میں باغی سمجھا جائے ،ْدہشت گرد سمجھا جائے یا انہیں اسٹیک ہولڈرز مانا جائے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ یہی ابہام افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الاقوامی حمایت یافتہ امن مذاکرات کے آغاز میں رکاوٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کی طالبان سے بات کرنے کا طریقہ بہت ہی زیادہ منتشر ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ قومی اتحاد پر مبنی افغان حکومت کامیاب ہو، اپنی رٹ قائم کرے اور طالبان و دیگر گروپس کو یہ واضح پیغام بھیجے کہ پوری دنیا چاہتی ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کریں اور مسئلے کو حل کریں کیوں کہ کوئی بھی افغانستان میں لڑائی جاری رہنے کا خواہاں نہیں۔

(جاری ہے)

سرتاج عزیز نے کہا کہ افغان حکومت کی سوچ میں وضاحت ،ْ پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم اور عالمی دباؤ مشترکہ طور پر طالبان کو واضح پیغام بھیج سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ اس طرح وہ مذاکرات کی میز پر آٰجائیں۔سرتاج عزیز نے کہا کہ افغان تنازع کو فوجی طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں کئی سالوں سے جاری ہیں تاہم ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا بلکہ طالبان مزید مضبوط ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بارہا افغان صدر اشرف غنی کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان دشمن باغیوں پر پاکستان میں زمین تنگ کردی گئی ہے اور جو بھی پاکستان میں چھپے ہوئے تھے وہ واپس افغانستان جاچکے ہیں۔سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر طویل سرحد پر سیکیورٹی بڑھانے کے لیے پہلے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب ماضی کی طرح سرحد پر آزادانہ نقل و حمل ممکن نہیں، مسافروں کو افغانستان یا پاکستان میں داخل ہونے کے لیے قانونی دستاویز دکھانے پڑتے ہیں۔سرتاج عزیز نے افغانستان پر بھی زور دیا کہ وہ بھی اپنی طرف اس طرح کے اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ سرحد پر نقل و حرکت کی نگرانی ممکن ہوسکے۔