سندھ پبلک سروس کمیشن میں چیئرمین اور ممبران کی غیر قانونی تقرریوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس ،ْسندھ حکومت سے معاملے سے متعلق رپورٹ طلب

معاملہ پرعدالت کے سامنے غلط بیانی کی گئی تو کمیشن بنا یا جاسکتا ہے ،ْسپریم کورٹ آف پاکستان جب کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری ہی غیر قانونی تھی تو ان کی سفارشات کی کیا قانونی حیثیت رہ جاتی ہے ،ْجسٹس امیر ہانی مسلم

بدھ 18 جنوری 2017 22:56

․اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جنوری2017ء) سپریم کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن میں چیئرمین اور ممبران کی غیر قانونی تقرریوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سندھ حکومت سے معاملے سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر معاملہ پرعدالت کے سامنے غلط بیانی کی گئی تو کمیشن بنا یا جاسکتا ہے ۔ بدھ کوجسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے بھرتی کئے گئے 21سوملازمین کے وکیل ذوالفقار خالد ملوکا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھومرو، ایڈیشنل سیکرٹری سروسز سندھ عدالت میں پیش ہوئے ۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے مستعفی ہونے والے چیرمین سندھ پبلک سروس کمیشن محمد سلیم بھنور کی تقرری پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی تقرری قواعدو ضوابط کیخلاف کی گئی ان کی سروس دو ماہ کم تھی اس کے باوجود انہیں چیرمین مقرر کردیا گیا ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ جو ریکارڈ کیبنٹ ڈویژن سے آیا وہ میرے پاس نہیں، اس موقع پر جسٹس ا میرہانی مسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے متعلقہ ریکارڈ حاصل کرنے کی بھی کوشش نہیں کی ہے ،خلا ف ورزیوں کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے ،آپ کو چیئرمین کی تقرری سے قبل رولز کو دیکھنا چاہئے تھا ، چیئرمین ممبران کا تقرر کرتا ہے لیکن جس چیئرمین کی تقرری ہی غیر قانونی ہو اس کی جانب سے کی جانے والی تقرریوں کی کیا قانونی حیثیت ہوگی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر 6 ممبران تو کورٹ آنے پر نااہل ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کوبتایا کہ 2013ء میں بھرتی کا اشتہار د ینے کے بعد یہ معاملہ شروع ہوا اور2016ء میں رزلٹ آنے تک چلتا رہا ، جس پرجسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بھرتیوں کے عمل میں تین سال لگائے ہیں اتنے عرصہ میں تو اہل لوگ بھی زائدالعمر ہونے کی وجہ سے نا اہل ہو جاتے ہیں، متاثر ہ افراد کے وکیل ذوالفقار خالد ملوکا نے عدالت کوبتایاکہ 2013ء کے امتحانی بیچ میں 21سو افراد نے امتحان دیا 1150 افراد کو تقرریوں کے لیٹرز جاری کئے گئے ، چیئرمین و ممبران کی تقرریوں کے ازخود نوٹس کے بعد ان میں زیادہ تر کو نکال دیا گیاہے کچھ لوگ خود ملازمت چھوڑ گئے ،ہمیں بتایاجائے کہ ان کا موجودہ سٹیٹس کیا ہے، کیاان کا دوبارہ انٹرویو لیا جائے گا جس پرعدالت نے قرار دیا کہ اس حوالے سے سندھ حکومت سے جواب طلب کرلیتے ہیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ جب کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری ہی غیر قانونی تھی تو ان کی سفارشات کی کیا قانونی حیثیت رہ جاتی ہے،کمیشن مکمل طور پر آزاد خود مختار نہیں ہوتا بلکہ حکومت کے ماتحت ہو تا ہے، ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں جس کے تحت کمیشن کی سفارشات کو قانونی تحفظ حاصل ہے، بعدازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو امیدواروں سے دوبارہ انٹرویو لینے کے بارے میں صوبائی حکومت سے احکامات لے کر عدالت کو آگا ہ کر نے کی ہدا یت کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی ,

متعلقہ عنوان :