سپریم کورٹ نے 52 کروڑ کے تحائف کی تفصیلات طلب کرلیں

بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے ،سپریم کورٹ نواز شریف نے پہلے کہا والد نے جدہ کی فیکٹری لگائی ،پھر کہا کچھ دوستوں کی مدد سے لگائی یہ سب جاننا چاہتے ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ ہوسکتا ہے کہ رقم بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے بھیجی گئی ہو ، یہ بھی ممکن ہے کہ کالا دھند ہوکر بیٹے نے باپ کو رقم بھیجی اور باپ نے بیٹی کے نام زمین خرید لی، تحفے میں بیٹے نے باپ کو کوئی گھڑی نہیں دی صرف رقم ہی کیوں دی، ہوسکتا ہے امیروں کے تحفے ایسے ہی ہوتے ہوں،سربراہ بنچ کے ریمارکس چار سال میں حسین نواز نے والد کو 52 کروڑ روپے تحفے میں دیئے ، تاثر ملتا ہے کہ رقم گردش کررہی ہے، ہم اتنی بڑی رقم کا ذریعہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی ،جسٹس اعجاز الحسن کے ریمارکس ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو پیسے دیتے ہیں لیکن یہاں مختلف ہورہا ہے ،جسٹس اعجاز افضل ،عدالت نے مزید سماعت آج تک کیلئے ملتوی کر دی

بدھ 18 جنوری 2017 17:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 جنوری2017ء) سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے نواز شریف کی تقاریر اور عدالت میں اٹھائے گئے موقف میں تضاد پر وضاحت طلب کرتے ہوئے بچوں کی جانب سے نواز شریف کو چار سال میں 52 کروڑ کے تحائف کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلی ہیں کیس کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف نے اپنی تقاریر میں کہا کہ والد نے کمر کس کر جدہ کی فیکٹری لگائی جبکہ انٹرویو میں کہا کہ میں نے کچھ دوستوں کی مدد سے فیکٹری لگائی یہ سب کہا ہے جاننا چاہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ رقم بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے بھیجی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کالا دھند ہوکر بیٹے نے باپ کو رقم بھیجی اور باپ نے بیٹی کے نام زمین خرید لی تحفے میں بیٹے نے باپ کو کوئی گھڑی نہیں دی صرف رقم ہی کیوں دی ہوسکتا ہے کہ امیروں کے تحفے ایسے ہی ہوتے ہوں انہوںنے کہا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے منی لانڈرنگ کرکے وہی رقم واپس پاکستان بھیجی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

جسٹس اعجاز الحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چار سال میں حسین نواز نے والد کو باون کروڑ روپے تحفے میں دیئے جس سے تاثر ملتا ہے کہ رقم گردش کررہی ہے ہم اتنی بڑی رقم کا ذریعہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو پیسے دیتے ہیں لیکن نواز شریف کے کیس میں مختلف ہورہا ہے ۔

کیس کی سماعت بدھ کے روز جسٹس آصف سعید کھوسہ ، کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الامین پرمشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل نے وزیراعظم کی نااہلی کیلئے دی گئی درخواست کی منظوری کی استدعا کی جس کو عدالت نے منظور کرتے ہوئے وزیراعظم سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے اور جماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف سے استفسار کیا کہ کیا آپ درخواست پر دلائل دینے کیلئے تیار ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ تحریری دلائل تیار ہیں ابھی دے سکتا ہوں اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل کے بعد آپ دلائل دینگے چاہتے ہیں کہ جب درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہوں تو فریقین کو سنا جائے جبکہ جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ بینک ریکارڈ کی تصدیق کیوں نہیں کرائی گئی آپ کو دستاویزات اپنے جواب کے ساتھ جمع کروانی چاہیخ تھیں جس پر مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت چاہے تو بینکوں سے ریکارڈ کی تصدیق کرواسکتی ہے عدالت سے کچھ چھپا نہیں چاہتے تمام بینکوں سے سرٹیفکیٹ بھی شامل عمل تھا اس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ تصدیق کے بغیر دستاویزات قبول کرلیں تو دوسرے فریق کی دستاویزات ماننا پڑیں گی دونوں کیلئے پیمانہ ایک ہی ہوگا وزیراعظم کے وکیل نے عدالت کو اکائونٹس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے اکاونٹ سے تین لاکھ دس ہزار ڈالر مریم نواز کے اکائونٹ میں منتقل ہوئے وزیراعظم کے ہیلتھ اور انکم ٹیکس کے گوشوارے عدالت میں جمع ہیں تحائف کا ذکر وزیراعظم کے گوشواروں میں موجود ہے میرے موکل پر الزام ہے کہ اس نے آمدن کو تحائف ظاہر کرکے ٹیکس چھپایا ہے تحائف کو اسی صورت آمدن تصور کیا جائے گا جب یہ کسی ایسے شخص کی جانب سے دیئے گئے ہوں جس کا ٹیکس نمبر نہ ہو انکم ٹیکس قوانین کے تحت آئے ہوئے بیرون ملک سے تحائف ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں تسلیم کرتا ہوں وزیراعظم نے تحائف لئے لیکن بینک کے ذریعے لیے گئے ہیں رقم 2010ء میں حسین نواز نے بھیجی تھی اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ عزیزہ سٹیل مل 2005ء میں فروخت ہوگئی تھی حسین نواز کا اس کے علاوہ سعودی عرب میں کیا کاروبار ہے عدالت کو بتایا جائے جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کے بارے میں تفصیلات ان کے وکیل دینگے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ طویل عرصہ سے ملک سے باہر ہونے پر این ٹی این کی حیثیت کیا ہوتی ہے اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ انسان زندہ نہ رہے تو بھی این ٹی این برقرار رہتا ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیس کا ایک حصہ منی لانڈرنگ سے متعلق ہے الزام ہے کہ رقوم غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجی گئی رقوم کی منتقلی کے حوالے سے آپ کو تفصیلات بتانا ہوں گی جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان سے کوئی رقم باہر گئی کسی تکنیکی نقطے کو چھپانے کی کوشش نہیں کروں گا اس پر جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اس پر پہلے تحقیقات ہوچکی ہیں اس میں بعض افراد کے نام بھی سامنے آئے ہیں جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان بھی سامنے آیا تھا اعترافی بیان میں کئی لوگوں کے نام شامل تھے تکنیکی بنیاد پر ہونے والی منی لانڈرنگ مسترد ہوئی نیب نے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی دخواست گزار نے نیب کیخلاف کارروائی کی استدعا کی ہے اور نیب کو اپیل دائر کرنے کی استدعا کی گئی ہے مخدوم علی خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ تحقیقات میں نامزد ملزم کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا جس پر جسٹس آصف نے کہا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے منی لانڈرنگ کرکے وہی رقم واپس ملک بھجوائی جاتی ہے بلیک منی وائٹ کرنے کے حوالے سے بات نواز شریف کے حوالے سے نہیں کی ، رحمان ملک رپورٹ میں ہنڈی کے ذریعے رقم باہر بھیجنے کا ذکر موجود ہے اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ بیرون ملک میں ہو تو حکام یہاں رابطہ کرتے ہیں درخواست گزار نے خود تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تحقیقات سے قبل آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی کیسے ہوسکتی ہے مریم نواز پر وزیراعظم کی کفالت میں ہونے کا الزام ہے نواز شریف نے الزام کبھی تسلیم نہیں کیا الزام یہ بھی ہے کہ مریم نواز کو کاغذات نامزدگی میں زیر کفالت ظاہر کیا گیا ہے زیر کفالت میں وزیراعظم نے اپنا رویہ اہلیہ کا نام درج کیا وزیراعظم کے مخالف امیدوار نے کاغذات نامزدگی میں کوئی اعتراض نہیں اٹھایا ڈاکٹر یاسمین راشد نے اب ریفرنس دائر کرینگے زیر کفالت کے معاملے پر مریم نواز کے وکیل بھی عدالت کی معاونت کرینگے جس پر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ایک معاملے پر دو وکلاء کو کیسے سن سکتے ہیں مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ٹیکس فارم میں متعلقہ کالم نہ ہونے کی وجہ سے نام زیر کفالت کے خانے میں لکھا گیا ہے اس خانے میں لکھنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ وہ وزیراعظم کی زیر کفالت ہیں جس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ ٹیکس فارم میں ترمیم 2015 ء میں ہوئی پانامہ کا معاملہ کب سامنے آیا اس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ پانامہ کا معاملہ اپریل 2016ء میں سامنے آیا فارم میں ترمیم اس سے پہلے ہوچکی تھی نواز شریف نے 2011ء میں مریم کے نام زمین خریدی جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ کہیں یہ جائیداد بے نامی تو نہیں تھی جبکہ جسٹس اعجاز الامین نے استفار کیا کہ کیا 2011ء سے 2015ء کے دوران یہ جائیداد اس طرح بھی ظاہر کی گئی تھی مخدوم علی خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 2012ء میں جائیداد مریم نواز کے اثاثہ جات میں شامل کردی گئی تھی 2012ء سے 2013ء کی ہیلتھ سٹیٹمنٹ کے خانے میں اس لئے مریم نواز کے اثاثہ جات میں شامل کردی گئی تھی 2012ء سے 2013ء کی ہیلتھ سٹیٹمنٹ کے خانے میں اس لئے مریم نواز کا زیر کفالت کے خانے میں نہیں تھا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ بیٹی کے نام پر جائیداد کالم ظاہر کرنا نیک نیتی ہے ہوسکتا ہے کہ اس طرح ایک طرف جائیداد خریدی جارہی ہے اور احتیاط سے کام لیا جارہا ہو ممکن ہے کہ مریم نے والد کی جانب سے دی گئی رقم سے جائدیاد خریدی ہو ہوسکتا ہے کہ رقم غیر قانونی طریقے سے بیٹے کو بیرون ملک منتقل کی گئی ہو یہ کالا دھند ہو بیٹے کے والد کے نام رقم بھیجی والد نے بیٹی کے نام جائیداد خرید لی جبکہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ فارسی نہیں بول رہے مالی حساب کا ریکارڈ بتائیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا موقف کیا ہے ریکارڈ پر رقم سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں زمین کی خریداری کی تاریخیں اور بیٹے کے تحائف کی تاریخیں بہت اہم ہیں عدالت کو تمام تحائف کے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا جائے اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کی جانب سے بھیجے گئے تمام تحائف کا ذکر گوشواروں میں موجود ہے حسسین نواز نے کہا کہ 2012 میں سے بارہ کروڑ اٹھانوے لاکھ ہیں جس پر جسٹس اعجاز الامین نے کہا کہ چار سال میں حسین نواز نے باون کروڑ روپے حسین نواز کو تحفے میں دیئے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ رقم گردش کررہی ہے ہم رقم کا ذریعہ جاننا چاہتے ہیں کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آرہی ہے جبکہ اعجاز افضل نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو پیسے دیتے ہیں لیکن آپ کے کیس میں مختلف ہورہا ہے جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ زمین کی خریداری سے متعلق دستاویزات جمع نہیں ہوئی مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم نواز کے وکیل تمام دستاویزات ریکارڈپر لائینگے جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تحفے میں کوئی گھڑی نہیں دی گئی مسلسل رقم ہی دی گئی ہوسکتا ہے کہ امیروں کے تحفے ایسے ہی ہوتے ہوں جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کسی نہ کسی کو جواب دینا ہوگا ریکارڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں سے آمدن نہیں ہوتی اس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ وزیراعظم کے بیٹوں کا کاوبار ہے جس سے رقم آرہی ہے اس پر جسٹس اعجاز الامین نے کہا کہ اس رقم کوتحفے میںدینے کی کیا ضرورت ہے جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ اپنا پیسہ کس کاروبار سے آرہا ہے کیا کبھی والد نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ اتنا پیسا کہاں سے آرہا ہے اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم اپنے بچوں کے کاروبا سے آگاہ ہیں جبکہ عظمت سعید نے کہا کہ کوئی ریکارڈ ناہیں پیش کیا گیا جس سے حقائق معلوم ہوں کوئی فریق بھی نہیں چاہتا کہ سوراغ ملے اس پر ہم کیا کرسکتے ہیں جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفار کیا کہ وزیراعظم نے کبھی نہیں کہا کہ فلیٹ بچوں کے ہیں ایشو بڑا ہے ہوسکتا ہے کہ کچھ وقت لگ جائے جسٹس اعجاز الامین نے کہا کہ حسین نواز نے والد کو ہی تحائف کیوں دیئے آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ والد نے کمر کس کر جدہ میں فیکٹری لگائی جبکہ انٹرویو میں کہا کہ کچھ دوستوں کی مدد سے فیکٹری لگائی یہ سب کیا ہے جانا چاہتے ہیں آئندہ سماعت وزیاعظم کی تین تقاریر پر تمام پہلوئوں سے جائزہ لیں گے کسی فیصلے پر نہیں پہنچے اس لئے سوالات اٹھا کر کیس واضح کررہے ہیں اس پر مریم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایک جائیداد پر سوال اٹھا ہی ہے اس کے کاغذات آئندہ سماعت پر پیش کردوں گا جبکہ مخدوم نے کہا کہ نوازشریف نے کبھی بیٹے حسین نواز کی تردید نہیں کی اس پر جسٹس عظت نے کہا کہ اگر ہم تقاریر پر جاتے ہیں تو یہ آپ کیخلاف جاتی ہے پی ٹی آئی کی طرف سے فواد چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ مریم نواز کی جائیدا کو ریکارڈ کیلئے لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو حکم دیا جائے حکومت بھی ان کے پاس ہے یہ ریکارڈ میںردوبدل کرسکتے ہیں عدالت نے نواز شریف کی تقاریر اور عدالت یں پیش کے گئے تضاد پر وضاحت طلب کرلی عدالت نے کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی