مریم صفدر نے پانامہ لیکس کیس میں مزید دستاویزات سپریم کورٹ میں داخل کرادیں

1992ء میں شادی کے بعد کبھی اپنے والد کے زیرکفالت نہیں رہیں، عدالت جھوٹ پرمبنی درخواستوں کوخارج اوردرخواست گزارکو بدنام کرنے پرپٹیشنرکیخلاف کارروائی کرے مریم صفدر کا اپنے وکیل شاہد حامد کے ذریعے جمع کرائے گئے دستاویزات میں موقف

منگل 17 جنوری 2017 21:38

ْ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 جنوری2017ء) اے پی پی) مریم صفدر نے پانامہ لیکس کیس میں مزید دستاویزات داخل کرا تے ہوئے تحریک انصاف کی جانب سے ان پرلگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور ان کو بے بنیادقراردیتے ہوئے واضح کیاہے کہ 1992ء میں شادی کے بعد وہ کبھی اپنے والد کے زیرکفالت نہیں رہیں ، عدالت جھوٹ پرمبنی درخواستوں کوخارج اوردرخواست گزارکوبدنام کرنے پرپٹیشنر کیخلاف کارروائی کرے ۔

منگل کوایڈووکیٹ شاہد حامد کے توسط سے داخل کئے گئے جواب میں انہوں نے اپنے اثاثوں اوربینک اسٹیٹمنٹ کی نقول بھی منسلک کی ہیں ، نئی دستاویزات میں مریم صفدر نے کہا ہے کہ 1992ء میں شادی کے بعد وہ اپنے والد کی زیر کفالت نہیں رہیں، انہوں نے گزشتہ پانچ سال کے دوران اپنی آمدن اور ا پنے منظور شدہ ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات بھی جاری کرتے ہوئے بتایاہے کہ 2012ء میں ان کی غیر زرعی آمدن 146,490، زرعی آمدن 426 2,168, روپے تھی، اس طرح کل آمدن 2,314,917 روپے رہی، 2013ء میں غیر زرعی آمدن 226,040، زرعی آمدن 6,291,464 رہی یعنی 2013ء میں ان کی کل آمدن 6,517,504 روپے رہی۔

(جاری ہے)

2014ء میں غیر زرعی آمدن 1,259,132، زرعی آمدن 7,613,610 رہی جبکہ کل آمدن 8,872,742 روپے تھی۔ 2015ء میں غیر زرعی آمدن 973,243، زرعی آمدن 8,367,000 رہی جبکہ کل آمدنی 9,340,243 تھی۔ اس طرح 2016ء میں غیر زرعی آمدن 489,911، زرعی آمدن 11,638,867 رہی جبکہ کل آمدن 12,128,778 روپے تھی۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ 2013ء میں جس وقت وزیراعظم محمد نواز شریف نے الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت درخواست گزار کی کل آمدن 6,517,504 روپے تھی۔

شمیم ایگری فارم جنہیں عام طور پر رائے ونڈ کی اراضی کہا جاتا ہے، میں کل پانچ مکانات ہیں، جو ان کی دادی شمیم اختر کے نام پر ہیں، وہاں کی کل 384 کنال اراضی میں سے 364 اراضی مسز شمیم اختر کے نام ہے ، اوروہاں بجلی کے بلوں، مینٹیننس، سیکورٹی اور کھانا پینے کے تمام اخراجات بھی وہ اٹھاتی ہیں۔ ان پانچ مکانات میں مسز شمیم اختر، وزیراعظم محمد نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف کی فیملیز اور درخواست گزار خود رہائش پ-ذیر ہیں۔

، اور وہ خود شادی کے کچھ عرصہ بعد سے اب تک ( سوائے جلاوطنی دور کی) شمیم ایگری فارم میں واقع ایک علیحدہ مکان میں شوہر کے ساتھ مقیم ہیں۔ جواب کے مطابق شمیم ایگری فارم میں قیام پذیر تمام مکین اخراجات مل کر ادا کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے 2013ء میں درخواست گزار نے اپنے حصہ کے طور پر 5,000,000 روپے کی رقم اداکی جس کاذکرشمیم اختر کے ٹیکس گوشوارے میں بھی موجود ہے۔

2014ء میں میں نے 6,000,000 روپے کی رقم بطوراپنا حصہ ادا کیا۔ یہ مندرجات بھی مسز شمیم اختر کے گوشوارے میں موجود ہیں۔ 2015ء میں درخواست گزار نے ایک بارپھراتنی ہی رقم (6,000,000 روپی) بطور اپنا حصہ ادا کیا جو میرے ٹیکس گوشوارے میں بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزار عمران خان نے 2010ء میں اپنی طرف سے میرے دولت ٹیکس کا گوشوارہ جمع کرایا جس کے سیریل نمبر 6 کے مطابق میں نے اپنے والد سے 2,200,000 روپے کی رقم وصول کی، 2010ء میں چوہدری شوگر مل سے 42,304,310 روپے قرضہ حاصل کیا اس کے ساتھ اپنی دادی سے بھی 1,000,000 روپے وصول کئے۔

عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ 30 جون 2010ء کو میرے کل اثاثے 73,510,431 روپے تھے۔ انہوں نے اپنے موقف میں مزید کہا ہے کہ درخواست گزار نے جھوٹے الزامات پر مبنی دستاویز عدالت میں جمع کرائی ہیں کہ میں نے درج بالا رقم والد، دادی اور چوہدری شوگر مل سے قرض کے طور پر وصول کی ہے لیکن درخواست گزار اس حوالے سے کچھ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جواب میں بتایاگیاہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 2010ء میں جمع کردہ ٹیکس گوشوارہ ثابت کرتا ہے کہ میرے ذمہ ان کی 2,200,000 روپے واجب الادا ہیں۔

اس طرح مسز شمیم اختر کا تسلیم شدہ ٹیکس گوشوارہ (سیریل نمبر 14 بحوالہ دولت ٹیکس) اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ میرے ذمہ ان کی 1,000,000 رقم واجب الادا ہے۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ 2011ء میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے لاہورکے موضع سلطانکی تحصیل سٹی میں میرے لئے 85 کنال 19 مرلے اراضی خریدی جس کی تفصیلات CMA 7530/2016 میں موجود ہیں۔ اراضی کے اس سودے کا ذکر بھی وزیراعظم کے گوشوارہ برائے دولت ٹیکس کے سیریل نمبر 12 میں کیا گیا ہے اس وقت ایف بی آر کے فارم میں زمین کی خریداری کرنے والے ان افراد کے ناموں کاذکرکرنے کیلئے کوئی الگ خانہ موجود نہیں تھا۔

جوزیرکفالت نہیں تھے 7 جنوری 2016ء کواے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی اس معاملے میں حاصل کی گئی جن کے مطابق اراضی کی خریداری کاذکردرست طورپرکیاگیا جس کے بعد سے ایف بی آر نے ٹیکس گوشواروں میں دوسروں کے ناموں پراثاثوں کے اندراج کیلئے الگ خانہ مختص کررکھاہے جواب میں مریم صفد رنے مزید کہاہے کہ میں نی2012 ء میں اراضی خریداری کی مدمیں اپنے والد کوبینک کے ذریعے 24,851,526 روپے کی رقم اداکی اس طرخ 85 کنال 19 مرلے اراضی خریدی جو باقاعدہ ایک رجسٹرشدہ سیل ڈیڈ کے ذریعے ہوئی تھی، کااندراج ٹیکس ریٹرن اوردولت ٹیکس کے گوشوارہ میں بھی موجود ہے ، مریم صفد ر نے نئی دستاویزات میں کہا ہے کہ میری اورمیرے شوہرکی کل آمدن جس میں کیپٹن صفد رکے بطوررکن پارلیمنٹ ملنے والے الاوئنس اورتنخواہ کے باعث اضافہ ہوا ہے ،کیپٹن صفدراس وقت سے ٹیکس اداکررہے ہیں جب انہوں نے 1986ء میں سرکاری ملازمت جوائن کی تھی وہ جلاوطنی کے وقت سرکاری ملازم رہے تھے، دستاویزات میں مزیدکہاگیاہے کہ مذ موم مقاصد کے تحت درخواست گزارکوزیرکفالت ظاہرکرنے کے حوالے سے خود ساختہ جھوٹے الزامات کامقصداسی بنیادپروزیراعظم کونااہل قراردینے کی ایک کوشش ہے کہ ان کی بیٹی نے کاغذات نٓامزدگی میں اپنے اثاثے ظاہر نہیں کئے جبکہ پٹیشنر کی درخواست میں ایسی کوئی استدعا نہیں کی گئی ہے کہ درخواست گزاریعنی مریم صفد رکووزیراعظم کی زیرکفالت ہونے کو تسلیم کیاجائے دوسری جانب سے اس معاملے کاپٹیشنرکے بنیادی حقوق سے بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔

نئی دستاویزات میں کہاگیاہے کہ چھ سالوں کے دوران ان کو وزیراعظم کی جانب سے جو تحائف دینے کی بات کی جارہی ہے اس کے بارے میں پہلے ہی عدالت کوبتایاجاچکاہے یہ الزام کہ 2011 ء میں 31,700,000 کاتحفہ کراس چیک کے ذریعے نہیں دیاگیا،سراسرغلط ہے جس کاجائزہ سٹینڈرڈ چارٹربینک اورحبیب بینک کی اسٹیٹمنٹ سے لیاجاسکتاہے۔ مریم صفدرنے نئی دستاویزات میں استدعاکی ہے کہ ان کوعدالتی ریکارڈ کاحصہ بنایاجائے اور مجھے بدنام کرنے پرپٹیشنرکیخلاف کارروائی کی جائے۔