طیبہ تشدد کیس:ملزمان کیساتھ والدین کوبھی سزاکامستحق ٹھہرایاجائے

کیاوالدین کاکام صرف بچوں کوپیداکرناہوتاہے؟طیبہ کادعویٰ کرنیوالے والدین کوبھی ایسی سزادی جائے،کہ آئندہ کوئی ماں باپ اپنے معصوم بچوں کی کفالت سے راہ فراراختیارنہ کرے،عوامی حلقوں کاحکومت اورسپریم کورٹ سے مطالبہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 17 جنوری 2017 20:06

طیبہ تشدد کیس:ملزمان کیساتھ والدین کوبھی سزاکامستحق ٹھہرایاجائے

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ثناءاللہ ناگرہ سے۔17جنوری2017ء) : طیبہ تشدد کیس کے تحت ملزمان کیساتھ والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جائے، کیا والدین کا کام صرف بچوں کو پیدا کرنا ہوتا ہے؟ دراصل والدین کی ذمہ داری بچوں کی کفالت اور بہترین پرورش کرنا بھی ہوتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق دنیامیں ہزاروں طیبہ جیسی معصوم بچیاں اور بچے ہیں جن کووالدین پیداتوکرتے ہیں لیکن جب ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت وقت آتاہے توان سے منہ پھیرلیتے ہیں۔

یہ کیسے لوگ ہوتے ہیں۔جن کوذرابھی پروانہیں ہوتی کہ اپنے جگرکے گوشوں کودوسروں کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں یاپھر ان سے چھٹکاراپانے کیلئے تعلیم وتربیت کابہانہ بناکردوسروں کے رحم وکرم پرچھوڑدیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ معصوم بچے جن کے ہاتھوں میں کھیلنے کیلئے کھلونے اور پڑھنے کیلئے قلم کتابیں ہونی چاہئیں۔

(جاری ہے)

یہ بچے حکومتی عدم توجہی کے باعث چھوٹی موٹی دکانوں پرمشقت کرنے پرمجبورہیں۔

والدین کے ساتھ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کوزندگی گزارنے کیلئے بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔مجھے زمانہ جہالت کاوہ دوریادآرہاہے جب بیٹیوں کوزندہ درگورکردیاجاتاتھا۔ کفرکے دورمیں اپنے اناپرستی کی ناک کواونچارکھنے کیلئے والد تب یہ بہانہ بناتے تھے کہ اگربیٹی ہوئی تولوگ اس کوجینے نہیں دینگے کہ وہ دیکھوبیٹی کاباپ جارہاہے۔

اگرکسی کے گھربیٹی پیداہوتی توجاہل باپ غم سے چورہوجاتا۔لوگوں سے نظریں ملانے کی بجائے چھپتاپھرتا۔جس کے باعث جھوٹی اناپرستی اور کفرمیں چُور رہنے والے کافراپنی بیٹیوں کوپیداہونے سے پہلے ہی قتل کردیتے تھے یا پھر اپنی ننھی منھی سی گڑیاؤں کوزندہ درگورکردیاکرتے تھے۔جب بیٹی کی عمرچھ سات برس ہوتی تو باپ جنگل میں گھڑاکھودآتااور اپنی بیوی سے کہتاکہ بیٹی کوایک میت کی طرح تیارکرو۔

یہ بے رحم سنگدل باپ اپنی بیٹی کوجنگل میں ساتھ لے جاتااور گھڑے میں دھکا دے کراوپر سے مٹی ڈال دیتا۔اس کے برعکس دین اسلام اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وہ مقام ومرتبہ عطاکیا جو کوئی اورمذہب نہیں دے سکا۔یہ اسلام ہی ہے جس نےعورت کوماں، بیٹی ،بہن اوربہو کے روپ میں ان کی قدرومنزلت فرمائی اور ان کو مقدس وپاکیزہ رشتوں سے منسلک کردیا۔

اورمردوں کے مقابل انہیں بھی وہی حقوق دیئے تاکہ وہ سماج وسوسائٹی میں مردوں ہی کی طرح زندگی بسرکرسکیں۔ قارئین یہ تمہید باندھنے کامقصدیہ ہے کہ اگرطیبہ ان بدنصیب والدین کی بیٹی نہیں بلکہ بیٹاہوتاتو شاید یہ لوگ اس کواپنے سے الگ نہ کرتے کہ کل کواس کی کمائی کھائیں گے یااس کی تعلیم وتربیت اور شادی کرنے کیلئے پیسے کابھی بندوبست نہیں کرناپڑے گا۔

اگرسوچاجائے تووالدین کیلئے بیٹی کی عزت سب سے مقدم ہوتی ہے۔یہ کیسے والدین ہیں جنہوں نے اپنی بیٹی کوپیسوں کے صرف چندٹکوں میں فروخت کردیا۔ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم کے گھرطیبہ پرتشدد شاید یہی سوچ کرہوتاہوگاکہ ماں باپ نے کونسا اس کی پوچھ گچھ کیلئے آناہے۔ عوامی حلقوں نے حکومت اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیاہے کہ طیبہ پرتشددکرنیوالوں کیساتھ اس کے والدین کادعویٰ کرنے والے اورڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کیے جانیوالے والدین کوبھی سزادی جائے۔تاکہ آئندہ کوئی بھی ماں باپ اپنے معصوم بچوں کی کفالت سےراہ فرار اختیار نہ کرسکے۔