مصر کی اعلی عدالت کی جانب سے جزیرے سعودی عرب کو نہ دینے کا فیصلہ برقرار

منگل 17 جنوری 2017 14:00

قاہرہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 جنوری2017ء) مصر کی اعلی عدالت نے بحیر احمر کے دو جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے نہ کرنے کے عدالتی فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق مصر کی اعلی انتظامی عدالت (ہائی ایڈمنسٹریٹو کورٹ) نے یہ فیصلہ حکومت کی اس اپیل پر سنایا ہے جس میں مصری حکومت نے استدعا کی تھی کہ ایک ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے جس میں عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ تیران اور صنافیر نامی جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے منصوبے کو روک دے۔

جب جج نے یہ فیصلہ سنایا کہ حکومت یہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے کہ مذکورہ دو جزیرے دراصل سعودی عرب کی ملکیت تھے، تو کمرہ عدالت تالیوں سے گونج اٹھا۔ان جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے منصوبے پر جب گذشتہ سال اپریل میں دستخط کیے گئے تھے تو مصر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔

(جاری ہے)

یہ جزائر خلیجِ عقبہ کے دھانے پر واقع ہیں اور یہاں مصری فوج اور کثیرالقومی امن فوج کے سپاہیوں کے علاوہ کوئی آبادی نہیں ہے۔

اس بارے میں صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا تھا کہ یہ جزیرے ہمیشہ سے سعودی عرب کی ملکیت تھے اور سعودی عرب نے سنہ 1950 میں مصر سے درخواست کی تھی کہ ان جزیروں کی حفاظت کے لیے وہ وہاں پر اپنے فوجی تعینات کر دے۔لیکن اس بیان کے بعد السیسی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ملکی آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اصل میں وہ یہ جزیرے سعودی عرب کو فروخت کر رہے ہیں جس کے جواب میں وہ سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی امداد لے رہے ہیں۔

ناقدین کے بقول سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اپنے قاہرہ کے دورے کے موقع پر جس امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا وہ ان ہی جزیروں کی منتقلی کے جواب میں تھا۔ 2013 میں جب السیسی نے اپنے پیشرو صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدارپر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت سے سعودی عرب مسٹر سیسی کی مدد کرتا رہا ہے۔گذشتہ برس مسٹر سیسی کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ مصر کی سمندری سرحد کے تعین کے منصوبے کے اعلان کے بعد مصر بھر میں احتجاج شروع ہو گیا تھا جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔مصری یا سعودی حکومت کی جانب سے عدالت کے اس فیصلے پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

متعلقہ عنوان :