مردم شماری کے قانونی اور سیاسی اثرات ہیں یہ اسمبلیوں میں سیاسی نمائندگی کی بنیاد فراہم کرتی ہے، وزیراعلیٰ سندھ

وفاقی حکومت سے منقسم پول ،تمام سول پوزیشن میں بھرتی کیلئے کو ٹہ کے تعین کرنے کیلئے بنیاد فراہم کرتی ہے ، ہر ایک کو لازمی شمار کیا جائے ، سید مراد علی شاہ

پیر 16 جنوری 2017 22:07

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2017ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ مردم شماری کے قانونی اور سیاسی اثرات ہیں کیونکہ یہ اسمبلیوں میں سیاسی نمائندگی کی بنیاد فراہم کرتی ہے ،حلقوں کی حد بندی ہوتی ہے ۔ وفاقی حکومت سے منقسم پول اور تمام سول پوزیشن میں بھرتی کے لئے کو ٹہ کے تعین کرنے کے لئے بنیاد فراہم کرتی ہے لہذامردم شماری میں ہر ایک کو لازمی شمار کیا جائے اور غیر ملکیوں اور غیر قانونی تارکین وطن کو مردم شماری کی گنتی سے علیحدہ کیا جائے۔

انہوں نے یہ بات آج نیو سندھ سیکریٹریٹ میں کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی ۔ اجلاس میں صوبائی وزراء جبکہ مشیران ، معاونین خصوصی کو خصوصی طور پر شامل کیاگیا ۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن ، آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ ، چیف شماریات آصف باجوہ ، نادرا کے نمائندہ سہیل اور دیگر سینئر افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

کابینہ کے ایجنڈے میں امن و امان ، فوڈ اتھارٹی بل ، کنفلیکٹ انٹریسٹ بل ، عشر جمع کرنے سے متعلق قانون،پناہ شیلٹر ہومز،مردم اور خانہ شماری اور چند دیگر آئٹم شامل تھے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے دیگر تمام آئٹمزکو ملتوی کردئیے اور مردم شماری پر بحث، پریزینٹیشن اور نادارا کے نمائندوں کو بریفنگ کی اجازت دی۔ چیف شماریات نے مردم شماری پر کابینہ کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اب تک 5مردم شماری ہو چکی ہیں جس میں 1951،1961،1972،1981،1998میں ہونے والی مردم شماری شامل ہیں۔ چھٹی مردم اور خانہ شماری 2008میں ہونا تھی جو کہ نہ ہو سکی اور اب یہ 15مارچ 2017سے ہوگی جیسا کہ سی سی آئی نے اپنے 16دسمبر 2016کے اجلاس میں منظوری دی تھی۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ گھروں کی فہرست اور مردم شماری آپریشن ایک ساتھ شروع کیا جائیگا۔ فارم 2مردم شماری کے لئے استعمال کیاجائیگا جبکہ فارم 2Aمردم شماری مکمل ہونے کے بعد سادہ طریقے سے داخل کیا جائیگا۔ اس پر مکیش کمار چائولہ نے کہا کہ فارم 2Aمیں مائیگریشن ،عمر اور اس طرح کی دیگر اہم معلومات ہوتی ہیں انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم فارم ہوتا ہے اور اسے مردم شماری میں ابتدائی طور پر اسے شامل کیا جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے مکیش کمار چائولہ کے اس نقطے کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ اس ایشو کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھائیں گے۔ فیلڈ آپریشن کے لئے طریقے کار سے متعلق باتیں کرتے ہوئے کابینہ کو بتایا گیا کہ یہ ایک شمار کرنے کا طریقہ ہے جس کے تحت معلومات گھر گھر جا کر سوالات کرکے ریکارڈ اور جمع کی جائیں گی۔ آباد ی کا شمار عموماً رہائش کے مطابق ہوتا ہے اس ملک میں رہنے والے تمام افراد ما سوائے سفارت کاروں اور مہاجرین کے جو کہ کیمپوں میں رہتے ہیں مردم شماری کے عمل میں شمار کیا جائیگا۔

فیلڈ آپریشن کے تحت گھروں ، آبادی ، خانہ شماری ایک ساتھ کی جائیگی یعنی پہلے 3دنو ں میں گھروں کی فہرست تیار کی جائیگی اور اسکے بعد 10دنوں میں مردم شماری اور ایک دن بے گھروں کے شمار کے لئے ہوگا۔ مردم شماری دو مرحلوں میں کی جائیگی اور آپریشن تمام صوبوں میں شروع کیا جائیگا۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ صوبے میں 29انتظامی اضلاع اور 146مردم شماری کے اضلاع ہیں جس میں 932سینسس چارجز، 5132سینسس سرکل اور 38842سینسس بلاکس ہیں ہر ایک بلاک 14دن میں مکمل کیا جائیگا اور 3دن گھروں کی نمبرنگ کے لئے ہیں۔

10دن فارم 2کو پر کرنے کے لئے اور ایک دن بے گھر آبادی کے شمار کے لئے ہوگا۔ وو بلاکس کو ایک شمار کرنے والا دیکھے گا ایک مرحلہ 30دن کے اندر مکمل کیا جائیگا اور دوسرا مرحلہ 10کے وفقے سے شروع کیا جائیگا اور ایک یونیفارم اہلکار ہر ایک شمار کرنے والے کے ساتھ ہوگا۔ فیلڈ آپریشن پلان کی مرحلے وار تفصیلات کابینہ کو بتاتے ہوئے کہا گیا کہ گھروں کی فہرست کے آپریشن کی 3روزہ کام کا آغاز 15مارچ تا 17مارچ ہوگا۔

بلاک کے حساب سے فارم 2کو پر کرنے کے لئے 10دن ہونگے جو کہ 18مارچ تا 27مارچ ہو نگے۔ ایک دن بے گھر آبادی کے شمار کے لئے ہوگا اور ہر بلاک کے لئے ایک دن 28مارچ سے ہوگا۔ پر کئے گئے کاغذات واپس حاصل کئے جائینگے اور دوسرے بلاک کے لئیسینسس مٹریل جاری کیا جائیگا اور یہ 29مارچ تا 30مارچ 2017 تک ہوگا۔ گھرو ں کی فہرست کے آپریشن کا مرحلہ 11مئی تا 13مئی 2017ہوگا۔

کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ مکمل کوریج اور موثر فیلڈ کی نگرانی کے لئے ملک کی حد بندی چار ستونوں پر ہے ۔سینسس اضلاع،تعلقہ ،کینٹونمینٹ ،ایجنسیوں پر مشتمل ہیں ۔سینسس چارجز کناگوحلقہ /شہری علاقوں کا حصہ /کینٹونمینٹ پر مشتمل ہے ۔ 5تا 7سرکل چارج میں ہیں۔سینسس سرکل ، پٹوار سرکل /شہری علاقوں کا حصہ ، کینٹونمینٹ پر مشتمل ہے اور 5تا 7بلاک ایک سرکل میں ہیں اور ایک سرکل میں تقریبا 1500گھر ہیں اورسینسس بلاک میں 200تا 250گھر ہیں۔

پہلا مرحلہ کراچی (تمام اضلاع )حیدرآباد، گھوٹکی میں شروع کیا جائیگا اور دوسر ا مرحلہ صوبے کہ باقی ماندہ اضلاع میں شروع کیا جائیگا۔ کابینہ کو بتایا گیا کہسینسس آپریشن کے لئے 28038کی بطور شمار کرنے والے اور سپروائزر کی صورت میں صوبے کو فیلڈ فورس کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے لئے تعلیم ، روینیو، بلدیات ، بہبود آباد ی اور دیگر محکموں سے تعینات کیئے جائینگے۔

عملے کی تعیناتی شروع کر دی گئی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ عملے کی تربیت 24جنوری 2017سے شروع کر دی جائیگی۔ شمار کرنے والے کی تربیت کا آغاز 4فروری سے ہوگا تقریبا ً 183تربیت فراہم کرنے والے 28038فیلڈ اسٹاف کو 704بیچیز کی صورت میں تربیت فراہم کرینگے اور فیلڈ اسٹاف چار دن میں تربیت حاصل کریں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ ایک جوان ہر ایک شمار کرنے والے کے ساتھ ہوگا یہ آزادانہ طور پر ہر ایک گھر کا نمبر شمار کرے گا ۔

گھر کے سربراہ یا کسی بھی فرد کا کمپیوٹرائز شناختی نمبر تصدیق کے عمل کے لئے ریکارڈ کیا جائیگا۔ ویجیلنس ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو کہ مردم شماری کی ضلعی سطح پر مردم شماری کے کام کی نگرانی کرینگی اور اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ آبادی کی مکمل طریقے سے کوریج ہو ۔ صوبائی ، ضلعی اورسینسس کی ضلعی سطح پر کوآرڈینیشن کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں ۔

ہر ایکسینسس بلاک کے نقشے جس میں لینڈ مارکس بتائی گئی ہے وہ شمار کرنے والوں /سپروائزرز کو فراہم کئے جائینگے۔ مردم شماری کے کاغذات کو خصوصی اسٹیکرز کے ساتھ مہر بند کر کے آرمڈ فورسیز کی زیر نگرانی واپس کئے جائینگے۔ کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ پبلسٹی مہم کا بھی آغاز کیا جائیگا جس کے تحت عوام کو ان کے تعاون کے حوالے سے آگاہی دی جائیگی۔

وزیراعلیٰ سندھ کے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ عبوری نتائج کا 60دن کے اندر اعلان کیا جائیگا۔ سوال و جواب میں حصہ لیتے ہوئے منظور وسان نے کہا کہ مردم شماری کے فارم میں صرف 6مذاہب ہیں اور 10زبانیں ہیں اور اس میں پارسیوں ، گجراتی اور کاٹھیواڑی اور اس طرح کی دیگر مقامی زبانوں کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا کہ بابائے قوم محمد علی جناح کی مادری زبان گجراتی تھی لہذا اسے فارم میں لازمی شمار کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح سے اس بات کا اندازا لگانے میں بھی آسانی ہو جائیگی۔ پارسی ، گجراتی اور دیگر کتنی تعداد میں سندھ میں رہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ ان ایشوز کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھائیں گے اور اس حوالے سے انہوں نے چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایات بھی جاری کیں۔ ایم پی اے ڈاکٹر مہیش ملانی نے کہا کہ خانہ بدوشوں کو شمار ی میں نہیں لیا گیا ہے۔

اس پر چیف شماریات نے بتایا کہ انہیں بے گھر افراد میں شمار کیا جائیگا۔ سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے کہا کہ اعتراضات اور انکے خاتمے کے حوالے سے کوئی مناسب میکنزم نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک منتخب نمائندہ مانیٹرنگ کے لئے ہونا چاہیے۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ سپرویژن کمیٹی میں منتخب بلدیاتی نمائندہ شامل ہے۔ نادرا کے نمائندے سہیل نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 22.4ملین افراد کو قومی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں۔

اور 3.3ملین 18سال سے کم عمر آبادی پر مشتمل ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ کے ایک سوال کے جواب میں سہیل نے کہا کہ نادرا کے پاس 30موبائیل ویہکلز ہیں جو کمپیوٹرائز شناختی کارڈ جاری کر تی ہیں۔ ان میں سے 13کو ان علاقوں میں بھیجا جائیگا جہاں پر کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ کے اجراء کی ضرورت ہے ۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ اپنی کابینہ اراکین کے ساتھ مشاورت کے بعد ان علاقوں کی نشاندہی کرینگے جہاں پر قومی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کرنے کی ضرورت ہے اور نادرا کو اطلاع دینگے تاکہ وہ وہاں پر اپنی ٹیمیں بھیجیں۔

سید مراد علی شاہ نے یہ بھی واضح کیا کہ دور دراز علاقوں کی ضروریات کے لئے 13گاڑیاں ناکافی ہیں۔ جام خان شورو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نادرا کے نمائندہ نے کہا کہ ہر ایک موبائل ٹیم روزانہ صرف 60تا 100کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کا اجراء کر سکتی ہے اس پر کابینہ نے فیصلہ کیا کہ وہ موبائل ٹیموں میں اضافے کے لئے وفاقی حکومت سے رجوع کرینگے۔

کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ صوبے کی مختلف علاقوں کے لوگوں کو 15000قومی شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں مگر انہوں نے وہ ابھی تک وصول نہیں کئے ہیں لہذا نادرا انہیں ختم کر رہی ہے اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے نادرا کو مشورہ دیا کہ وہ ان کارڈز کو متعلقہ لوگوں تک پہچانے کے لئے ایک اور کوشش کریں جس کے لئے میر ی ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ تعاون کریگی اگر آپ ایسے کارڈز کی فہرست فراہم کردیں۔ کابینہ کے اجلاس کے اختتام پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مردم شماری کی پالیسی واضح ہونی چاہیے تاکہ ہر ایک افراد کا شمار صحیح طریقے سے کیا جاسکے۔ سندھ حکومت بیور آف اسٹیٹکس اور نادرا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کو یقینی بنائے گی۔

متعلقہ عنوان :