پولیس کو ابھی تک اسلام آباد اور گرد و نواح سے لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق کوئی شواہد نہیں مل سکے ،ْ انجینئر بلیغ الرحمن

لاپتہ افراد کا معاملہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘ ہم خود نمٹیں گے‘ امریکہ اور برطانیہ کو معاملے پر بات کر نے کا کوئی حق نہیں ،ْ رضا ربانی

پیر 16 جنوری 2017 21:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2017ء) وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے سینٹ کو بتایا ہے کہ پولیس کو ابھی تک اسلام آباد اور گرد و نواح سے لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق کوئی شواہد نہیں مل سکے جبکہ چیئر مین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہاہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘ ہم خود نمٹیں گے‘ امریکہ اور برطانیہ کو معاملے پر بات کر نے کا کوئی حق نہیں ۔

پیر کواجلاس کے دوران وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے کہا کہ وزیر داخلہ نے پولیس کو ہدایت کی کہ پانچویں لاپتہ شخص کے حوالے سے معلومات لیں۔14 جنوری کو پولیس کو ان کی طرف سے درخواست موصول ہوئی۔15 جنوری کو ثمر عباس نامی شخص کے لاپتہ ہونے کی پولیس سٹیشن رمنا میں ایف آئی آر درج کی گئی۔

(جاری ہے)

13 جنوری کو کراچی سے آئے تھے۔ پولیس نے پتہ چلایا ہے کہ جی الیون تھری سے آخری میسج کیا گیا ہے۔

گزشتہ کیسوں میں بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ موبائل فونز کا ریکارڈ بھی نکلوایا ہے۔ ابھی تک خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ پولیس، آئی بی اور دیگر ایجنسیوں سے بھی بات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو ابھی تک لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے‘ پولیس اپنی تفتیش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

چیئرمین سینٹ نے وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان کے لاپتہ افراد کے معاملے پر اظہار خیال سے قبل ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے دو دنوں میں امریکی دفتر خارجہ اور یو کے کی طرف سے جو بیانات آئے یہ دونوں نامناسب بیانات تھے۔ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘ ہم اس سے خود نمٹیں گے۔ ان دونوں حکومتوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ افراد کو لاپتہ کرنے کے معاملے پر بات کریں خاص طور پر کشمیر میں لوگوں کو لاپتہ کرنے پر یہ دونوں حکومتیں خاموش ہیں۔ فلسطین میں لوگوں کو مارا جارہا ہے اور یہ دونوں حکومتیں خاموش ہیں۔ ہم کسی غیر ملکی حکومت کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہیں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں۔